سوڈان : فسادات میں 29 افراد ہلاک

خرطوم: سوڈان میں حکومت کی جانب سے ایندھن پر سبسڈی ختم کرنے کے خلاف گذشتہ چار روز کے دوران تشدد کے واقعات میں طبی اہلکاروں کی جانب سے اطلاعات کیمطابق 29 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔
ملک کے شمال میں واقع دارالحکومت خرطوم میں ہزاروں لوگوں نے احتجاج کرتے ہوئے حکومت کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔
صدر عمر البشیر نے 1989 میں طاقت کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کیا تھا، وہ انٹرنیشنل کریمنل کورٹ کو جنگی جرائم اور نسل کشی میں مطلوب ہیں۔ انہوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے لئے اپنا دورہ منسوخ کردیا ہے.
عینی شاہدین کے مطابق جمعرات کے روز تازہ فسادات میں خرطوم کے جنوب میں انقاز ضلع میں تقریبا تین ہزار لوگوں نے ٹائر جلائے اور گزرنے والی گاڑیوں پر پتھراؤ کیا۔
پولیس نے جواب میں مظاہرین پر آنسو گیس اور ربڑ کی گولیاں برسائیں۔ لیکن فوری طور پر اموات کی کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی ہے۔
سوڈان کی بندرگاہ خرطوم کے شمال مشرق میں ایک ہزار کلو میٹر کے فاصلے پر بحیرہ احمر پر واقع ہے، عینی شاہدین نے اطلاع دی ہے کہ مظاہرین کو آنسو گیس کے ذریعے منتشر کیا جا رہا ہے۔
خرطوم کے جڑواں شہر عمودالرحمان میں ایک اسپتال کے ذریعے نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ پیر سے شروع ہونے والے مظاہروں میں ہلاک ہونے والے اکیس افراد کی لاشیں وصول کی ہیں، جو تمام سویلین تھے۔ جبکہ آٹھ افراد ملک کے دوسرے علاقوں میں ہلاک ہوئے۔
اے ایف پی کے نامہ نگار کے مطابق جمعرات کے مظاہروں کے بعد انسداد فسادات فورس کو الصبح خرطوم کے اہم چوراہوں پر تعینات کر دیا گیا ہے۔
مظاہرین نے خرطوم کے جنوب میں واقع وزارت سیاحت کی عمارت کو جلانے کی کوشش کی جس کے باعث اس کا بیرونی حصہ جھلس گیا۔
خرطوم کے گورنر عبدالرحمان الخضر نے گزشتہ شب ٹیلی وژن پر خبردار کیا کہ عوامی املاک کو نقصان پہنچانے والوں کے ساتھ حکومت آہنی ہاتھوں سے نمٹے گی۔
ٹی وی نشریات میں گاڑیوں، پیٹرول پمپ، عمارتوں کو جلتے ہوئے دکھایا گیا ہے، ان کا مزید کہنا تھا کہ تشدد میں ملوث عناصر کو عدالت کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ پولیس قانون کو توڑنے اور نجی اور عوامی املاک کو نقصان پہنچانے والوں کے خلاف کاروائی کر رہی ہے۔
فسادات کی شروعات مرکزی سوڈان کی ریاست جزیرہ میں واد مدنی سے ہوئی جو جنوبی ریاست دارفر کے دارالحکومت تک پھیل گئے۔
دو سال قبل جنوبی سوڈان کے آزادی حاصل کرنے کے بعد خرطوم کو تیل کی رسد میں اربوں ڈالر کا نقصان ہوا تھا.