جنوبی ایشیا میں مون سون سیزن کے دوران معمول سے زیادہ بارشوں اور گرمی کا امکان
ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن (ڈبلیو ایم او) نے کہا ہے کہ اس سال جون سے ستمبر تک جنوب مغربی مون سون سیزن کے دوران جنوبی ایشیا کے زیادہ تر حصوں میں معمول سے زیادہ بارش اور اوسط سے زیادہ درجہ حرارت کی پیشگوئی کی گئی ہے۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق علاقائی ماحولیات سے متعلق 9 جنوبی ایشیائی ممالک افغانستان، بنگلہ دیش، بھوٹان، بھارت، مالدیپ، میانمار، نیپال، پاکستان اور سری لنکا کے قومی موسمیاتی اور ہائیڈرولوجیکل سروسز (این ایم ایچ ایس) نے مشترکہ طور پر نقطہ نظر تیار کیا تھا، جس کے مطابق مقامی سطح پر فیصلہ سازی کی پیشگوئیوں کمی کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔
اس پیشگوئی میں موجودہ عالمی ماحولیاتی حالات کا ماہرانہ جائزہ شامل تھا، ڈبلیو ایم او کا کہنا ہے کہ اس وقت غیر جانبدار ایل نینو سدرن اوسلیشن (ای این ایس او) کی صورتحال بحر الکاہل میں موجود ہے، اور توقع ہے کہ جنوب مغربی مون سون سیزن کے دوران یہ سلسلہ جاری رہے گا، ایل نینو، لا نینا اور دیگر ماحولیاتی مظاہر بشمول بحر ہند کے ڈپول کو اہم اثر انداز ہونے والے عوامل سمجھا جاتا ہے۔
شمالی نصف کرہ میں برفانی تودوں میں کمی بھی اہم عنصر ہے، جنوری اور مارچ میں برف باری گزشتہ 59 سال کے دوران بالترتیب چوتھی اور چھٹی کم ترین سطح پر ریکارڈ کی گئی۔
ڈبلیو ایم او کا کہنا ہے کہ جون سے ستمبر تک مون سون جنوبی ایشیا کے زیادہ تر حصوں میں زندگی پر حاوی رہتا ہے، اور خطے کے بیشتر حصوں میں 75 سے 90 فیصد سالانہ بارشوں کا حصہ برستا ہے، یہ قومی معیشتوں، زرعی پیداوار اور غذائی تحفظ کی ’جان‘ ہے، لیکن مون سون سیزن مہلک سیلاب کا سبب بھی بن سکتا ہے۔
ڈبلیو ایم او نے کہا کہ ان عوامل کے پیش نظر نشاندہی ہوتی ہے کہ سب کے لیے ’ارلی وارننگ‘ کا عالمی اقدام ترجیح کیوں ہے۔
دریں اثنا محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ وسطی اور جنوبی پاکستان میں معمول سے کچھ زیادہ بارش کا رجحان ہوسکتا ہے، جس میں سب سے زیادہ بارشیں شمال مشرقی پنجاب میں ہوں گی، تاہم شمالی علاقوں میں معمول سے قدرے کم بارش کا امکان ہے۔
محکمہ موسمیات نے کہا کہ مئی سے جولائی تک معمول سے زیادہ بارش سے قحط زدہ علاقوں میں مٹی کی نمی کی کمی دور ہونے کی توقع ہے، تاہم حکام نے خبردار کیا کہ خاص طور پر جنوبی پنجاب اور سندھ کے میدانی علاقوں میں ’ہیٹ ویو‘ اور سیزن کی دوسری ششماہی میں موسلادھار بارشوں کی وجہ سے کئی علاقوں میں اربن فلڈنگ کا خدشہ ہے۔
شمالی علاقوں میں بلند درجہ حرارت سے برف پگھلنے میں تیزی آنے کا امکان ہے، جس کے نتیجے میں دریاؤں میں پانی کی سطح میں اضافہ ہوگا۔
ڈبلیو ایم او کا کہنا ہے کہ مون سون کی پیشگی معلومات زراعت، توانائی، صحت عامہ اور خطرے کے انتظام میں ’منصوبہ بندی اور فیصلہ سازی‘ کو تقویت دیتی ہیں۔