پہلی بار ’ڈی این اے‘ سے انسانوں کی قدیم ترین ہجرت کا سراغ لگا لیا گیا

شائع May 19, 2025
— فوٹو: دی اسٹریٹس ٹائمز
— فوٹو: دی اسٹریٹس ٹائمز

جدید دور کے منگولیا یا سائبیریا میں رہنے والے افراد اور جنوبی امریکا کے ملک پیرو سے تعلق رکھنے والے کیچوا قوم کے درمیان کیا مماثلت ہو سکتی ہے جبکہ ان کے درمیان تقریباً 20 ہزار کلومیٹر کا فاصلہ ہے؟

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق نانیانگ ٹیکنالوجی یونیورسٹی (این ٹی یو) سنگاپور کے سینٹر فار انوائرمنٹل لائف سائنسز انجینئرنگ سے تعلق رکھنے والے سائنسدانوں کے مطابق ان دونوں اقوام کے افراد درحقیقت اپنے ڈی این اے میں غیرمعمولی حد تک مماثلت رکھتے ہیں۔

تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ابتدائی ایشیائی انسانوں نے شمالی ایشیا سے لے کر جنوبی امریکا تک 20 ہزار کلومیٹر سے زیادہ کا پیدل سفر کیا تھا۔ اس سفر نے تقریباً 14 ہزار سال پہلے جنوبی امریکا میں جینیاتی منظرنامے کو تشکیل دیا، جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ایشیائی اور جنوبی امریکی اقوام کے درمیان گہرے جینیاتی تعلقات موجود ہیں۔

یہ انسانیت کی تاریخ کی سب سے طویل ماقبل تاریخ ہجرت سمجھی جاتی ہے، جس میں ممکنہ طور پر انسانوں کی کئی نسلوں کو ہزاروں سال لگے ہوں گے۔ یہ ہجرت برنگیا نامی زمینی پُل سے شروع ہوئی جو برفانی دور میں سائبیریا کو الاسکا سے ملاتا تھا، وہاں سے انسانوں نے پاناما کے استھمس کو عبور کیا اور بالاآخر جنوبی امریکا کے جنوبی حصے چلی کے پیٹاگونیا تک پہنچے اور وہاں آباد ہو گئے۔

یہ پہلا موقع ہے کہ اس تاریخی نقل مکانی کا سراغ ڈی این اے تجزیے کے ذریعے لگایا گیا ہے۔ این ٹی یو کے ایشین اسکول آف دی انوائرمنٹ سے تعلق رکھنے والے ایسوسی ایٹ پروفیسر کم ہائی لم کا کہنا ہے کہ اس طرح کی جینیاتی تحقیق نقل مکانی کے نمونوں کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ مختلف خطوں میں مدافعتی نظام میں پائے جانے والے فرق کی وضاحت میں بھی مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔

یہ نتائج 16 مئی کو سائنسی جریدے سائنس میں شائع کیے گئے تھے، جو امریکن ایسوسی ایشن فار دی ایڈوانسمنٹ آف سائنس کے ہم مرتبہ نظرثانی شدہ تعلیمی جریدے اور دنیا کی اعلیٰ تعلیمی اشاعتوں میں سے ایک ہے۔ اس کے بعد 139 متنوع نسلی گروہوں کے ایک ہزار 537 افراد کے ڈی این اے کی ترتیب کے اعداد و شمار کا تجزیہ کیا گیا تاکہ بعض بیماریوں سے متعلق جینیاتی نشانات کی شناخت میں مدد ملے۔

کارٹون

کارٹون : 17 جون 2025
کارٹون : 16 جون 2025