ہندو قوم پرستی اور مردانگی: ’ہمارے مودی تو تمام ایلفا مردوں کے باپ ہیں‘

شائع May 26, 2025
—السٹریشن: ابڑو
—السٹریشن: ابڑو

15 مئی کو بھارتی اداکارہ اور رکنِ پارلیمان کنگنا رناوت نے ایکس پر ایک اشتعال انگیز پوسٹ کی۔ اس پوسٹ میں انہوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر غصے کا اظہار کیا کہ وہ پاک-بھارت حالیہ جنگ میں بھارت کی مدد کو نہیں آئے۔ اس پوسٹ کے ساتھ ایک ڈرامائی تصویر بھی تھی جس میں کنگنا جنگی لباس میں ملبوس سفید گھوڑے پر سوار خیالی جنگ پر جا رہی تھیں۔

اپنے ایکس پوسٹ میں انہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کو ’ایلفا مرد‘ (غالب تشخص کا مالک مرد جس کی بات سب مانتے ہیں) قرار دیا لیکن پھر انہوں نے سوال کیا کہ کہیں ٹرمپ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے ’حسد‘ تو نہیں کرتے کیونکہ ’ہمارا وزیراعظم تو سب ایلفا مردوں کا باپ ہے‘۔ بعدازاں کنگنا رناوت نے با دل ناخواستہ وہ پوسٹ ڈیلیٹ کردی کیونکہ ان کے مطابق ان کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے قومی صدر نے ان سے پوسٹ ڈیلیٹ کرنے کی درخواست کی تھی۔

کنگنا رناوت کے اس پوسٹ میں کچھ ایسا تھا جو بھارت میں ہندو قوم پرستی کے سیاسی اور ثقافتی زاویوں کو سمجھنے میں مدد فراہم کرسکتا ہے۔ کنگنا رناوت کو ’ایلفا مرد‘ پسند ہیں اور مودی کو اس کی اعلیٰ مثال سمجھتی ہیں۔ لیکن ان کا غم و غصے سے بھرپور پوسٹ ایسا نہیں جسے محض مودی کے ایک احمق مداح کا خیال سمجھ کر نظرانداز کردیا جائے بلکہ درحقیقت اس کی جڑیں تو اس گہرے تصور سے جڑی ہیں جو 1920ء کی دہائی میں شروع ہوا اور جسے ہندو قوم پرستی یا ’ہندوتوا‘ کہا جاتا ہے۔ ہندوتوا ایک اعتقادی نظام ہے جو چاہتا ہے کہ بھارت میں ہندومت سب سے اہم اور طاقتور مذہب و ثقافت بنے۔

کنگنا رناوت مودی کی بی جے پی کی پُرجوش حامی رہی ہیں جوکہ بھارت کی سب سے بڑی ہندو قوم پرست تنظیم ہے۔ یہ بالخصوص بھارت کے بڑھتے ہوئے متوسط طبقے میں مقبول ہے جس نے 1980ء کی دہائی کے اواخر سے شروع ہونے والی ملک کی اقتصادی ترقی سے بہت کچھ حاصل کیا ہے۔

بی جے پی کا قیام 1980ء میں عمل میں آیا۔ اس کا ایک بڑا حصہ معدوم ہندو قوم پرست جماعت، اکھل بھارتیہ جن سنگھ سے شامل ہوا۔ ماضی میں جن سنگھ کی طرح بی جے پی کی جڑیں بھی انتہا پسند قومی پرست تنظیموں جیسے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) سے جڑی ہیں۔ آر ایس ایس بھارت میں 1925ء سے موجود ہے جس کا آغاز ہندو قوم پرستی کے ابتدائی مفکرین میں سے ایک ونائک ڈی ساورکر کے سیاسی اور ثقافتی نظریات کو فروغ دینے کے لیے کیا گیا تھا۔

1980ء کی دہائی کے اواخر سے بی جے پی نے بھارت میں اپنی بڑھتی مقبولیت سے لطف اندوز ہونا شروع کیا۔ پارٹی کو مقبولیت کا ایک بڑا حصہ اسی وجہ سے حاصل ہوا کہ وہ پرانے انداز میں کام کرنے پر رضامند تھی۔ اس نے بھارت کی سیاست اور سماج کی امن پسند یا ’گاندھیائی‘ اخلاقیات کو کھلے عام چیلنج کیا جسے ملک کی بانی جماعت، انڈین نیشنل کانگریس نے قائم کیا تھا۔ بی جے پی نے بھارتی سیکولرازم کا بھی مقابلہ کیا جس پر الزام ہے کہ یہ نظریہ بھارت کے غیرہندو گروپس جیسے کہ مسلمانوں کی جانب جھکاؤ رکھتا ہے۔ بی جے پی نے ہندو افسانوں کے ایک مخصوص ورژن کو زیادہ مقبول اور مرکزی دھارے کی ثقافت کا حصہ بنانے کے لیے کام کیا۔

کانگریس نے ہندو مذہب کے افسانوں کی تشریح ہندو مت کی رواداری، تکثیریت اور سیکولرازم کی علامت کے طور پر کی تھی۔ لیکن کانگریس نے ہندومت کے افسانوں کو تاریخی حقائق کے طور پر نہیں لیا۔ مگر بی جے پی نے یہی کیا اور ان افسانوں کو حقیقی تاریخ سمجھ لیا۔ اس سلسلے میں بی جے پی کا جارحانہ دباؤ بھارت کے اعلیٰ اور متوسط طبقے میں اس وقت کشش پیدا کرنے میں کامیاب ہوا جب انہوں نے معاشی لبرلائزیشن اور ڈی ریگولیشن کے ثمرات سے پوری طرح لطف اندوز ہونا شروع کیا۔

1950ء سے 1980ء کی دہائی کے وسط تک کانگریس متعدد بار اقتدار میں آئی اور اس دوران بھارت میں مختلف روحانی ’گرو‘ تھے جنہوں نے انسان کے اندرونی امن کی تبلیغ کی اور لوگوں کو مادیت پرستی کی وجہ سے پیدا ہونے والی نفسیاتی بیماریوں کے خطرات سے خبردار کیا۔ یہ مغرب میں بھی مقبول ہوئے جہاں ’روحانی اقدار‘ کی کمی تھی۔

1970ء کی دہائی کے اوائل میں پاکستان کے دانشور ممتاز مفتی کے صاحبزادے اُکسی (Uxi) مفتی نے لکھا کہ بھارت مغرب میں ’بھارتی روحانیت‘ کی برآمدات کررہا ہے اور پاکستان کو اس کا مقابلہ کرنے کے لیے تصوف برآمد کرنا چاہیے۔

اکسی مفتی نے اپنے زیادہ عسکریت پسند ہمسایے پاکستان کے مقابلے میں، خود کو روحانیت سے بھرپور اور پُرامن ملک کے طور پر پیش کرنے کے لیے روحانیت کی برآمدات کو بھارتی چال کے طور پر دیکھا۔

لیکن بھارتی متوسط طبقے کی معاشی اور سیاسی ترقی کے ساتھ کانگریس کے بھارت اور ہندو مت کے نظریے کو زوال آگیا۔ بھارتی ماہرِ سیاسیات سبیاساچی چوہدری کے مطابق 1980ء کے بعد کے بھارت کی نئی اقتصادی پالیسیز کو اُبھرتے ہوئے متوسط طبقے اور طاقتور اعلیٰ ذاتوں کی حمایت حاصل تھی۔ اس نے ایک ’مضبوط بھارتی قومی ریاست‘ کے قیام میں اہم فارمولے کے طور پر کام کیا۔ یہی وہ موڑ تھا کہ جب بھارتی جمہوریت غیرلبرل ڈگر پر چلنے لگی۔

وقت کے ساتھ ساتھ ابتدائی قوم پرست نظریات جنہیں پہلے نظرانداز کردیا گیا تھا، مرکزی دھارے کا حصہ بننے لگے۔ 2019ء کے مضمون میں ماہرِ سیاسیات جیوتیرمایا شرما نے لکھا کہ ابتدائی ہندو قوم پرست سوچ میں ایک بڑا موضوع ’مردانہ پن‘ تھا۔ ان مفکرین کا خیال تھا کہ ہندو کمزور اور غیر فعال ہو چکے ہیں، وہ لڑنے یا اپنی حفاظت کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ ہندوؤں کو بار بار شکست ہوئی اور ان پر پہلے مسلمان دراندازوں اور پھر انگریزوں نے حکمرانی کی۔ لہٰذا ہندو قوم پرست رہنماؤں نے ہندوؤں کو سخت بنانے اور انہیں مضبوط، بہادر انسانوں میں تبدیل کرنا اپنا فرض سمجھا۔

پرانی مساجد کو تباہ کرنا، مہاتما گاندھی کی توہین کرنا (خواجہ سرا کہہ کر)، مسلمانوں اور نچلی ذات کے لوگوں پر حملہ کرنا، تصوراتی قدیم ہندو جنگوں کے بارے میں فلمیں اور ٹی وی شوز بنانا، ’دہشت گرد پاکستان‘ کو تباہ کرنے کا مطالبہ کرنا، عیسائی مشنریوں پر حملہ کرنا اور گائے کا گوشت کھانے پر لوگوں پر تشدد کرنا، یہ سب چیزیں آج کے بھارت میں ہو رہی ہیں جوکہ ہندو معاشرے کو زیادہ جارحانہ اور مردانہ بنانے کی کوشش ہے جس کی قیادت ’تمام ایلفا مردوں کا باپ‘ کر رہا ہے۔

لیکن اس سب میں ہندو خواتین کا کیا کردار ہوتا ہے؟ اپنی کتاب ’میک می اے مین‘ میں مطالعہ صنف کی پروفیسر سکاتا بنرجی لکھتی ہیں، ’خواتین بہادر ماں، پاک دامن بیوی اور جنگجو جیسے کرداروں کے ذریعے اس مردانہ ماحول میں اپنی جگہ بناتی ہیں‘۔

امریکی سیاسی تھیوریسٹ سنتھیا اینلو کے مطابق قوم پرست نظریات، مردانہ یادداشت، مردانہ شرمندگی اور مستقبل کے حوالے سے مردوں کی امیدوں سے جنم لیتے ہیں۔ بےشک ایسا ہی ہوتا ہے لیکن جیسا کہ ہم نے دیکھا کہ ہندو قوم پرستی کا آغاز سیکولرازم سے ہوا جس میں ہندومت اور قوم، نرم اور ’نسائی‘ نظریہ رکھتی تھی۔

تاہم 1990ء کی دہائی سے اس کی جگہ جارحانہ مردانہ سوچ نے لے لی کیونکہ متوسط طبقے میں معاشی خوش حالی نے ایک ایسی ذہنیت تشکیل دی جو اعتماد اور عدم تحفظ کا مجموعہ تھی۔ اس عدم تحفظ نے انہیں یہ باور کروایا کہ ایک سخت، مردانگی پر مرکوز قوم پرستی ان کی معاشی کامیابی کی بہتر انداز میں حفاظت کرے گی۔

اپنے 56 انچ کے سینے پر فخر کرنے والا وزیر اعظم (جیسا کہ مودی نے ایک بار دعویٰ کیا تھا) شاید بھارت کے متوسط طبقے کو محفوظ اور مضبوط محسوس کروا سکتا ہے۔ لیکن اسی وزیر اعظم کا ملک کو جنگ میں دھکیلنا بالکل مختلف ہے بالخصوص تب کہ جب وہ جنگ ہار بھی جائیں۔

آج بھارتی میڈیا پر ہنگامہ آرائی، ملک کی سیاست میں ابہام اور ایلفا مردوں کی بازگشت کرتی ایکس پوسٹس، ظاہر کرتی ہیں کہ سخت، مردانہ قوم پرستی سے پیدا ہونے والا تحفظ کے احساس کی دیوار اب ڈھانے لگی ہے۔

قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ پاکستان کے خلاف حالیہ جنگ میں بھارت کو ملنے والی عسکری اور سفارتی شکست کے فوراً بعد ہی قوم پرستی کے مضبوط نظریے میں شگاف پڑنے لگی ہے۔ 56 انچ کے سینے کے تشخص کو نقصان پہنچا ہے اور اس نے بھارت کے متوسط طبقے کو وجودی الجھن اور شناخت کے حوالے سے بےیقینی کی کیفیت میں مبتلا کیا ہے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

ندیم ایف پراچہ

ندیم ایف پراچہ ثقافتی تنقید نگار اور ڈان اخبار اور ڈان ڈاٹ کام کے سینئر کالم نگار ہیں۔ انہوں نے پاکستان کی معاشرتی تاریخ پر اینڈ آف پاسٹ نامی کتاب بھی تحریر کی ہے۔

ٹوئٹر پر فالو کریں:NadeemfParacha@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 15 جون 2025
کارٹون : 14 جون 2025