دو ماہ میں مزید دو لاکھ افغان باشندے پاکستان چھوڑ گئے، وزارت داخلہ
پاکستانی حکومت کی جانب سے اپریل میں شروع کی گئی ملک بدری کی مہم کے بعد سے دو لاکھ سے زائد افغان اپنے وطن ( افغانستان) واپس جا چکے ہیں، جبکہ ایران سے بھی افغان باشندوں کی ملک بدری میں اضافہ ہوا ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے اےایف پی کی رپورٹ کے مطابق عشروں کی پے در پے جنگوں کے دوران افغانوں کی نسلیں پاکستان اور ایران میں پناہ اور بہتر معاشی مواقع کی تلاش میں پناہ گزین تھیں، مگر دونوں حکومتیں بڑی مہاجر آبادیوں سے تنگ آ چکی ہیں اور لاکھوں افغانوں کو گرفتاری کی دھمکی دیتےہوئے ملک چھوڑنے کا حکم دیا ہے۔
پاکستان نےآٹھ لاکھ سے زائد افغانوں کو بے دخل کرنے کے لیے ایک سخت مہم شروع کی ہے جن کے رہائشی پرمٹ منسوخ کر دیے گئے ہیں، ان میں کچھ ایسے افغان بھی شامل ہیں جو پاکستان ہی میں پیدا ہوئے تھے یا کئی دہائیوں سے یہاں رہ رہے تھے۔
وزارت داخلہ کے مطابق، اپریل میں ایک لاکھ 35 ہزار سے زائد افغان پاکستان سے گئے، جبکہ مئی میں تقریباً 67 ہزار اور جون کے پہلے دو دنوں میں تین ہزار سے زائد کو واپس بھیجا گیا۔
اس ہفتے کے آخر میں عید الاضحیٰ کی چھٹیوں سے قبل واپس جانے والوں کی تعداد میں کمی آئی ہے، لیکن آج بھی کچھ افغان پاکستان سے مرکزی سرحدی راستوں کو عبور کر رہے تھے۔
اقوام متحدہ کی بین الاقوامی تنظیم برائے ہجرت (آئی او یم ) نے منگل کو ایران سے افغان خاندانوں کی ملک بدری میں اضافے پر تشویش کا اظہار کیا، جس میں مئی میں 15 ہزار 675 کی تعداد ریکارڈ کی گئی، جو گزشتہ ماہ کے مقابلے میں دو گنا سے زیادہ اضافہ ہے۔
ایرانی حکام نے بغیر دستاویزات کے افغانوں کو 6 جولائی تک ملک چھوڑنے کا حکم دیا ہے، ایرانی وزارت داخلہ کے اہلکار نادر یارحمدی نے سرکاری ٹیلی ویژن پر کہا کہ اس سے 40 لاکھ کے قریب افغان متاثر ہوں گے، جبکہ ایران کا کہنا ہے کہ ملک میں 60 لاکھ سے زائد افغان موجود ہیں۔
آئی او یم نے کہا کہ دونوں سرحدوں سے مہاجرین کی آمد سے افغانستان کے پہلے سے ہی آبادکاری کے کمزور نظام پر دباؤ پڑنے کا خطرہ ہے، آئی او ایم نے ایک بار پھر پاکستان اور ایران سے افغانوں، چاہے ان کی امیگریشن کی حیثیت کچھ بھی ہو، کی جبری واپسی فوری طور پر اس وقت تک معطل کرنے کا مطالبہ کیا ہے ، جب تک کہ محفوظ، رضاکارانہ، اور باوقار واپسی کے حالات موجود نہ ہوں۔
سرحدی تشدد میں اضافہ
لاکھوں افغان گزشتہ کئی دہائیوں سے پناہ کی تلاش میں پے در پے جنگوں سے فرار ہو کر پاکستان میں آ بسے ہیں، جبکہ 2021 میں طالبان حکومت کی واپسی کے بعد بھی لاکھوں کی تعداد میں افغانوں نے پاکستان کا رخ کیا۔
افغان مہاجرین کی بے دخلی کے لیے 2023 میں ایک مہم کا آغاز کیا گیا تھا، جس کے نتیجے میں لاکھوں افراد کو ہفتوں کے اندر سرحد عبور کرنی پڑی، کیونکہ انہیں ہراساں کیے جانے یا گرفتاری کا خوف تھا، مجموعی طور پر 10 لاکھ سے زائد افغان پاکستان سے واپس جا چکے ہیں۔
اسلام آباد نے افغانوں کو ’ دہشت گرد اور جرائم پیشہ’ قرار دیا ہے، لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ ملک بدری کی مہم افغانستان کے طالبان حکام پر سرحدی علاقوں میں عسکریت پسندی کو کنٹرول کرنے کے لیے دباؤ ڈالنے کے لیے بنائی گئی ہے۔
گزشتہ سال پاکستان میں حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد ایک دہائی میں سب سے زیادہ ریکارڈ کی گئی، پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کو افغانستان کے ساتھ سرحد پر شدید دباؤ کا سامنا ہے، جہاں بلوچستان میں دہشت گردوں اور خیبر پختونخوا میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور اس سے منسلک گروہوں کے بڑھتے ہوئے حملوں کا سامنا ہے۔
حکومت اکثر افغان شہریوں پر حملوں میں ملوث ہونے کا الزام لگاتی ہے اور کابل پر عسکریت پسندوں کو اپنی سرزمین پر پناہ دینے کا الزام لگاتی ہے، جسے طالبان رہنما مسترد کرتے ہیں۔
کچھ پاکستانی سیکیورٹی اور معاشی مشکلات میں اضافے کے ساتھ افغان آبادی کی بڑی تعداد کی میزبانی سے تنگ آ چکے ہیں، اور ملک بدری کی اس مہم کو وسیع پیمانے پر حمایت حاصل ہے۔
پاکستان نے اب کہا ہے کہ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر ) کی جانب سے جاری کردہ مہاجرین کے کارڈز کے حامل 13 لاکھ افغانوں کو حاصل تحفظ جون کے آخر تک ختم کردیا جائے گا۔













لائیو ٹی وی