ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی ہمشیرہ نے نظربندی کےخلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا
بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) کی رہنما ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی نظربندی کے خلاف ان کی ہمشیرہ نادیہ بلوچ نے سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق نادیہ گبول نے بدھ کو سپریم کورٹ سے اپیل کی کہ وہ بلوچستان ہائی کورٹ کے 15 اپریل کے اُس حکم کو کالعدم قرار دے جس میں امن عامہ برقرار رکھنے کے قانون کے تحت ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی حراست کے خلاف دائر درخواست کو مسترد کر دیا گیا تھا۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اس وقت کوئٹہ کی ہُدا ڈسٹرکٹ جیل میں قید ہیں، اُن کی گرفتاری 22 مارچ کو ڈپٹی کمشنر کے جاری کردہ حکم کے تحت عمل میں آئی تھی، جو امن عامہ کے قانون کے تحت جاری کیا گیا تھا۔
سپریم کورٹ میں سینئر وکیل فیصل صدیقی کے توسط سے دائر کی گئی اپیل میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے اپنی حراست کو بلوچستان ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا، مگر ہائی کورٹ نے اُن کی درخواست مسترد کر دی۔
اب سپریم کورٹ میں دائر کی گئی اپیل میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ ہائی کورٹ کا فیصلہ آئین، قانون اور حقائق کے منافی ہے۔
درخواست میں وزارت داخلہ کے ذریعے وفاقی حکومت، محکمہ داخلہ و قبائلی امور بلوچستان، پراسیکیوٹر جنرل، انسپکٹر جنرل پولیس، ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے، ڈپٹی کمشنر کوئٹہ اور ریاست کو فریق بنایا گیا ہے۔
درخواست میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی بار بار غیر قانونی حراست اور انہیں شدت پسندوں کی ہمدرد قرار دینا دراصل ایک منظم کوشش ہے تاکہ وہ لاپتا افراد کے حق میں آواز نہ اٹھا سکیں، عدالت کو آگاہ کیا گیا کہ ان کے والد اور بھائی بھی بالترتیب 2011 اور 2017 میں جبری گمشدگی کا شکار بنے تھے۔
مرکزی اپیل کے ساتھ ایک علیحدہ درخواست بھی سپریم کورٹ میں دائر کی گئی ہے جس میں استدعا کی گئی ہے کہ موجودہ مقدمے کے فیصلے تک بلوچستان ہائی کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد معطل کیا جائے۔
ایک اور درخواست بھی سپریم کورٹ میں جلد دائر کیے جانے کا امکان ہے جس میں حراست کے حکم میں توسیع کو چیلنج کیا جائے گا۔
مرکزی اپیل میں کہا گیا ہے کہ دسمبر 2023 میں ’بلوچ لانگ مارچ‘، جو کہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) کے دیگر اراکین کی قیادت میں منعقد ہوا، کو ریاستی اداروں کی طرف سے مبینہ طور پر غیر قانونی اور حد سے زیادہ طاقت کا سامنا کرنا پڑا۔
درخواست میں الزام لگایا گیا کہ 11 مارچ کو ایک مسافر ٹرین پر شدت پسند حملے کے بعد ریاستی اقدامات میں واضح شدت آئی، 20 مارچ کو بی وائی سی کے مرکزی کمیٹی کے رکن بیبرگ زہری اور ان کے بھائی کو ان کے گھر سے اغوا کیا گیا، جبکہ 19 مارچ کو ان کی رشتہ دار سعیدہ بلوچ کو گرفتار کرکے 2 دن تک غیر قانونی طور پر بغیر کسی الزام کے حراست میں رکھا گیا۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ بلوچستان ہائی کورٹ سے یہ غلطی ہوئی کہ اُس نے وہ تمام ضروری شواہد طلب نہیں کیے جن کی بنیاد پر بلوچستان میں ایم پی او (امن عامہ کا قانون) نافذ کیا گیا تھا، اگر یہ مواد عدالت کے سامنے آتا تو وہ خود جانچ سکتی تھی کہ یہ حکم معقول، غیر جانبدار اور قانونی تھا یا نہیں۔
درخواست میں یاد دلایا گیا کہ سپریم کورٹ نے 2003 میں فیصلہ دیا تھا کہ حراست کا حکم دینے والے ادارے پر لازم ہے کہ وہ فیصلے کی بنیاد بننے والا تمام مواد عدالت کے سامنے پیش کرے، چاہے کسی دستاویز پر رازداری یا استثنیٰ کا دعویٰ ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ ہائی کورٹ اس بات کا جائزہ لینے کی مکمل مجاز ہے کہ آیا ایم پی او کے تحت حراست کے لیے درکار شرائط پوری ہوئی تھیں یا نہیں۔
عدالت کو آگاہ کیا گیا کہ انصاف کا تقاضا درخواست گزار کے حق میں ہے اور اگر موجودہ مقدمے کے فیصلے تک ہائی کورٹ کے حکم پر عملدرآمد معطل نہ کیا گیا تو درخواست گزار کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔
درخواست میں مؤقف اپنایا گیا کہ ڈپٹی کمشنر نے ایم پی او کے تحت جو حکم جاری کیا، وہ اس کے قانونی اختیار سے تجاوز تھا کیونکہ یہ حکم اُس نے یکطرفہ طور پر وزیراعلیٰ کی منظوری کے بغیر جاری کیا۔












لائیو ٹی وی