کاٹن جنرز کو سیلز ٹیکس برقرار رکھنے، درآمدی روئی پر سیلز ٹیکس کی چھوٹ ختم نہ کرنے پر تشویش
پاکستان بھر میں کاٹن جننگ اور آئل ملز کی صنعتیں وفاقی بجٹ میں روئی اور اس کی مصنوعات پر سیلز ٹیکس ختم نہ کرنے اور درآمدی روئی پر سیلز ٹیکس کی چھوٹ ختم نہ کرنے پر شدید مایوسی اور تشویش کا شکار ہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ فیصلہ وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے قائم کردہ 2 کمیٹیوں کی مضبوط سفارشات کے باوجود کیا گیا، جس سے فیکٹریوں کی مزید بندش، روئی کی کاشت میں نمایاں کمی، اور قیمتوں میں شدید گراوٹ کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے، رپورٹس کے مطابق بجٹ کے بعد صرف 2 دن میں روئی کی قیمت میں حیران کن طور پر ایک ہزار روپے فی من کمی واقع ہوئی ہے۔
جنرز کا کہنا ہے کہ ایک غلط ایکسپورٹ فسیلیٹیشن اسکیم (ای ایف ایس) (جو چند سال پہلے متعارف کرائی گئی تھی) نے بغیر سیلز ٹیکس کے روئی، کاٹن یارن، اور گری کپڑا درآمد کرنے کی اجازت دی، جب کہ ملک میں انہی اشیا کی خریداری پر 18 فیصد سیلز ٹیکس لاگو رہا۔
کاٹن جنرز فورم کے چیئرمین احسان الحق نے کہا کہ اس اسکیم کے نتیجے میں لاکھوں روئی کی گانٹھیں اور یارن درآمد کیے گئے، جس سے ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر پر شدید منفی اثر پڑا۔
روئی کی قیمتوں میں ایک ہزار روپے فی من کمی
اس کے ساتھ ہی ٹیکسٹائل ملز نے مقامی روئی خریدنا بند کر دی، جس سے روئی اور پھٹی کی قیمتوں میں زبردست کمی ہوئی، نتیجتاً، پاکستان کی کُل کپاس کی پیداوار 25-2024 میں صرف 55 لاکھ گانٹھوں تک محدود ہو گئی، جو تاریخ کی دوسری کم ترین سطح ہے، جب کہ 2 لاکھ سے زائد گانٹھیں اب بھی فروخت نہیں ہو سکیں۔
پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک اور جنر جنید اقبال نے بتایا کہ روئی کی کاشت میں کمی کی وجہ سے پاکستان کو اربوں ڈالر کی خوردنی تیل کی درآمد پر مجبور ہونا پڑا، ای ایف ایس اسکیم نے کاٹن جننگ سیکٹر کو بدترین معاشی بحران میں دھکیل دیا، جس کی وجہ سے ملک بھر میں 800 سے زائد جننگ یونٹس اور سیکڑوں آئل ملز بند ہو چکی ہیں۔
احسان الحق کا کہنا ہے کہ ان سفارشات کو نظر انداز کرنے کے نتیجے میں صرف 2 دن میں روئی کی قیمت میں ایک ہزار روپے فی من کی تاریخی کمی ہوئی، جس سے قیمت 16 ہزار سے 16 ہزار 200 روپے فی من تک آ گئی ہے، اور قیمت میں مزید کمی کا بھی خدشہ ہے۔













لائیو ٹی وی