نقد رقم نکالنے پر ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح 0.6 فیصد سے بڑھا کر 0.8 فیصد کرنے کی منظوری

شائع June 14, 2025
وزیر خزانہ نے کہا کہ یکم جولائی سے صوبے زرعی آمدن پر ٹیکس وصولی کا عمل شروع کریں گے — فائل فوٹو: ڈان
وزیر خزانہ نے کہا کہ یکم جولائی سے صوبے زرعی آمدن پر ٹیکس وصولی کا عمل شروع کریں گے — فائل فوٹو: ڈان

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ و محصولات نے یومیہ نقد رقم نکالنے کی کم از کم حد بڑھانے کی منظوری دے دی ہے، جسے 50 ہزار روپے سے بڑھا کر 75 ہزار روپے کر دیا گیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق قائمہ کمیٹی نے آن لائن خریداریوں پر 2 فیصد اضافی سیلز ٹیکس عائد کرنے کی علیحدہ تجویز مسترد کر دی، جو بڑھتی ہوئی ای کامرس سرگرمیوں کے دوران نئے ڈیجیٹل ٹیکسز کی مزاحمت کو ظاہر کرتا ہے۔

رکن قومی اسمبلی (ایم این اے) نوید قمر کی زیر صدارت اجلاس میں نقد رقم نکالنے پر ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح 0.6 فیصد سے بڑھا کر 0.8 فیصد کرنے کی بھی منظوری دی گئی، تاہم، بینکوں کی قرض پر حاصل کردہ منافع پر ٹیکس کی شرح کو 15 فیصد سے بڑھا کر 20 فیصد کرنے کی تجویز مسترد کر دی گئی۔

دیگر فیصلوں میں، کمیٹی نے حکومت کی جانب سے گوگل اور یوٹیوب جیسے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کی فراہم کردہ خدمات پر ٹیکس 10 فیصد سے بڑھا کر 15 فیصد کرنے کی تجویز کی توثیق کی، تجارتی جائیدادوں سے حاصل شدہ کرائے پر 4 فیصد ٹیکس عائد کرنے کی علیحدہ تجویز کو مزید غور کے لیے مؤخر کر دیا گیا۔

کمیٹی نے ایک متنازع تجویز کو بھی مسترد کر دیا جس کے تحت 2 لاکھ روپے سے زائد کی تمام خرید و فروخت کو بینکنگ چینلز کے ذریعے کرنے کی شرط عائد کی جانی تھی، ناقدین کے مطابق اس اقدام سے چھوٹے تاجروں پر بوجھ پڑتا، اسی دوران، کمیٹی نے ایک ترمیم کی منظوری دی جس کے تحت کرائے کی آمدن کو کاروباری نقصانات کے خلاف ایڈجسٹ کرنے کی اجازت ختم کر دی گئی۔

سابق فاٹا اور پاٹا کے لیے دی گئی ٹیکس چھوٹ کے مرحلہ وار خاتمے کی تجویز پر بھی کمیٹی نے سخت مخالفت کی۔

نوید قمر نے اس اقدام کو خطے کے چھوٹے کاروباروں کے لیے ’معاشی قتل‘ قرار دیتے ہوئے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) پر زور دیا کہ وہ اس فیصلے پر نظر ثانی کرے، انہوں نے کم ترقی یافتہ علاقوں میں روزگار کے تحفظ اور اقتصادی بحالی کو یقینی بنانے کے لیے مقامی حالات کے مطابق مالیاتی ریلیف کے راستے تلاش کرنے کی ہدایت کی۔

کمیٹی کے اجلاس کا ایک بڑا حصہ کم آمدنی والے تنخواہ دار افراد کے لیے تجویز کردہ مختلف ٹیکس شرحوں پر بحث میں صرف ہوا۔

وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے اپنی بجٹ تقریر میں سالانہ آمدن 6 لاکھ ایک روپے سے 12 لاکھ روپے کے درمیان رکھنے والوں کے لیے 2.5 فیصد ٹیکس کا اعلان کیا تھا، لیکن فنانس بل 2025 میں اس شرح کو ایک فیصد دکھایا گیا۔

ایف بی آر کے چیئرمین راشد محمود لنگڑیال نے کمیٹی کو بتایا کہ وفاقی کابینہ نے کم آمدنی والے افراد کے لیے تجویز کردہ ٹیکس میں ریلیف واپس لے لیا ہے۔

نئے تعینات وزیر مملکت برائے خزانہ بلال اظہر کیانی نے حکومت کے اس فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے بتایا کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ کیا گیا ہے، جو پہلے 6 فیصد کی تجویز سے زیادہ ہے۔

تاہم، اراکین نے نشاندہی کی کہ تنخواہ میں اضافہ صرف سرکاری ملازمین کو فائدہ دے گا، جب کہ ٹیکس میں اضافے کا اثر نجی شعبے کے ملازمین پر پڑے گا، جو تنخواہ میں اضافے سے محروم ہیں۔

نوید قمر نے کم آمدنی والے ملازمین پر ٹیکس بوجھ بڑھانے کے کابینہ کے فیصلے پر تحفظات کا اظہار کیا اور اس کے جواز پر سوال اٹھایا۔

ایف بی آر کا اصلاحاتی منصوبہ

چیئرمین ایف بی آر نے کمیٹی کو ایف بی آر کے اصلاحاتی منصوبے پر بریفنگ دی، جس پر عمل درآمد دسمبر سے شروع ہوگا۔

کمیٹی کے بعض اراکین نے کراچی میں نافذ ’فیس لیس اسیسمنٹ سسٹم‘ کی مؤثریت پر تحفظات کا اظہار کیا جہاں اضافی چارجز، تاخیر اور جرمانوں کی شکایات سامنے آئی تھیں۔

ڈیجیٹل پروڈکشن ٹریکنگ اور ڈیجیٹل انوائسنگ سسٹم کی خرابیوں پر بھی اراکین نے تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ نظام پرانے، استعمال شدہ اور اسکریپ مال میں فرق نہیں کر پاتا، جس کے نتیجے میں غلط جرمانے عائد کیے جا رہے ہیں۔

ایف بی آر نے جواب دیا کہ کچھ اسٹیک ہولڈرز جان بوجھ کر قابل استعمال مال کو اسکریپ ظاہر کرتے ہیں، جو کہ ٹیکس چوری کے لیے کیا جاتا ہے۔

چیئرمین ایف بی آر نے بتایا کہ پاکستان میں سگریٹ اور تمباکو کے شعبے میں سالانہ 295 ارب روپے کی ٹیکس چوری ہو رہی ہے، اور اس پر قابو پانے کے لیے سخت اقدامات کیے جائیں گے۔

انہوں نے ٹیکسٹائل اور کپاس کے شعبے میں بھی کم ٹیکس ادائیگیوں پر تشویش کا اظہار کیا اور بتایا کہ موجودہ مالی سال میں ٹیکس شارٹ فال 7 ہزار 100 ارب روپے تک ہے۔

چاغی بارڈر کے ذریعے اسمگلنگ کو بھی ایک بڑا مسئلہ قرار دیا گیا، جس سے سالانہ 500 ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے، اگلے مالی سال سے کارگو ٹریکنگ سسٹم متعارف کروایا جائے گا۔

اندرون سندھ کے 22 بڑے دریائی پُلوں پر ڈیجیٹل اسکریننگ سسٹم نصب کیا جائے گا جو 20 کلومیٹر دور سے گاڑیوں کی جانچ کر سکے گا، ایف بی آر نے یقین دہانی کروائی کہ یہ نظام قانونی کاروبار کو متاثر نہیں کرے گا۔

سینیٹ کمیٹی برائے خزانہ

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں وزیر خزانہ اورنگزیب نے اقتصادی صورتحال، بجٹ اقدامات اور عالمی چیلنجز پر بریفنگ دی۔

انہوں نے تصدیق کی کہ ورلڈ بینک نے ریکوڈک منصوبے کے لیے مالی معاونت کی منظوری دے دی ہے، جب کہ انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن (آئی ایف سی) 70 کروڑ ڈالر فراہم کرے گی۔

بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیٹر احمد اور سینیٹر عبدالقادر نے صوبے میں پانی کی قلت کا معاملہ اٹھایا، سینیٹر احمد نے مطالبہ کیا کہ صحت اور تعلیم سے زیادہ اہم مسئلہ صاف پانی کی فراہمی ہے۔

انہوں نے کمیٹی سے مطالبہ کیا کہ 25 سال پہلے شروع ہونے والے کچھی کینال منصوبے کو مکمل کیا جائے۔

محمد اورنگزیب نے بتایا کہ بجٹ اقدامات کو آئی ایم ایف کی جانب سے مکمل حمایت حاصل ہے، اور ٹیکس اصلاحات اسی معاہدے کا حصہ ہیں، انہوں نے لیٹر آف کریڈٹ کھولنے میں مشکلات کی خبروں کو ’غلط معلومات‘ قرار دیا۔

نجکاری پر بات کرتے ہوئے انہوں نے اعتراف کیا کہ اہداف پورے نہیں ہوئے، لیکن پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کو دوبارہ نجکاری کے عمل میں شامل کر لیا گیا ہے۔

زرعی ٹیکس کے بارے میں انہوں نے کہا کہ پہلے کہا جاتا تھا کہ زرعی آمدن پر ٹیکس عائد نہیں ہو سکتا، اب کہا جاتا ہے کہ وصول نہیں کیا جا سکتا، ہم اسے وصول کریں گے، بس ہمیں موقع دیں۔

انہوں نے کہا کہ یکم جولائی 2025 سے صوبے زرعی آمدن پر ٹیکس وصولی کا عمل شروع کریں گے۔

سینیٹرز نے بیوروکریٹس کی ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھانے کی تجویز بھی دی، تاکہ پنشن کے بوجھ میں کمی لائی جا سکے، اس پر وزیر خزانہ نے کہا کہ ان کے سابقہ ادارے میں ریٹائرمنٹ کی عمر 65 سال تھی اور حکومت اس تجویز پر بجٹ کے بعد سنجیدگی سے غور کرے گی۔

کارٹون

کارٹون : 28 جون 2025
کارٹون : 27 جون 2025