• KHI: Clear 19.4°C
  • LHR: Partly Cloudy 14.2°C
  • ISB: Cloudy 11.7°C
  • KHI: Clear 19.4°C
  • LHR: Partly Cloudy 14.2°C
  • ISB: Cloudy 11.7°C

توانائی اور دفاع کے شعبوں سمیت 39 سرکاری محکموں کے اخراجات مختص بجٹ سے متجاوز

شائع June 17, 2025
— ڈان
— ڈان

وفاقی حکومت کے 39 محکموں نے رواں مالی سال میں اپنے مختص بجٹ سے زائد اخراجات کیے جن میں توانائی اور دفاع کے شعبے نمایاں رہے، جب کہ درجنوں محکمے اپنے فنڈز مکمل طور پر استعمال کرنے میں ناکام رہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کم از کم 39 سرکاری محکموں خاص طور پر توانائی اور دفاع کے شعبوں نے رواں مالی سال کے دوران اپنی مختص کردہ رقم سے زیادہ اخراجات کیے، جب کہ تقریباً تین درجن محکمے مختلف وجوہات کے باعث اپنے فنڈز مکمل طور پر استعمال نہ کرسکے۔

گزشتہ برس کی طرح اس سال بھی توانائی اور دفاع کے شعبے سب سے زیادہ خرچ کرنے والے شعبوں میں شامل رہے، جہاں توانائی کے شعبے نے اپنی مختص رقم سے 129 ارب 50 کروڑ روپے اور دفاع کے شعبے نے 61 ارب روپے سے زائد اخراجات کیے۔

وزارتِ دفاع کے دفاعی سروسز شعبے نے تقریباً 59 ارب 50 کروڑ روپے زائد خرچ کیے، جب کہ دفاعی ڈویژن نے اپنے مختص بجٹ سے ایک ارب 80 کروڑ روپے زیادہ استعمال کیے۔

بجٹ دستاویزات کے مطابق، رواں مالی سال کے دوران جاری اخراجات سے متعلق ’ڈیٹیلز آف ڈیمانڈز فار گرانٹس اینڈ اپروپری ایشنز‘ میں بتایا گیا ہے کہ دفاعی شعبے نے آپریٹنگ اخراجات اور فزیکل اثاثے کی مد میں اپنی مختص رقم سے زائد اخراجات کیے، جن میں فزیکل اثاثوں کی نظرثانی شدہ تخمینہ رقم 73 کروڑ روپے سے بڑھ کر 2 ارب 50 کروڑ روپے تک پہنچ گئی۔

توانائی کے شعبے نے سرمایہ کاری کے تحت 159 ارب روپے خرچ کیے، حالانکہ اس مد میں کوئی رقم مختص نہیں کی گئی تھی، جب کہ آپریشنل اخراجات بھی 21 کروڑ 50 لاکھ روپے سے بڑھ کر 46 کروڑ 60 لاکھ روپے تک پہنچ گئے۔

اسی طرح نیشنل ہیلتھ سروسز شعبے (یعنی وفاقی وزارت صحت کا سیکریٹریٹ) نے رواں مالی سال میں منظور شدہ 27 ارب 80 کروڑ روپے کے مقابلے میں 51 ارب 90 کروڑ روپے خرچ کیے، یعنی 24 ارب روپے سے زائد اضافی خرچ کیے۔

اس اضافے کی بڑی وجہ آپریٹنگ اخراجات تھے جو 13 ارب 30 کروڑ روپے سے بڑھ کر 35 ارب 80 کروڑ روپے ہوگئے۔

اگرچہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اپنے محصولات کا ہدف حاصل نہیں کرسکا، تاہم اس نے 6 ارب 57 کروڑ روپے اضافی خرچ کیے، جب کہ پاکستان پوسٹ نے بھی 6 ارب روپے زیادہ استعمال کیے۔

قرضوں کی ادائیگی

اگرچہ حکومت نے غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی میں ایک کھرب 77 ارب روپے کی بچت کی، تاہم ملکی قرضوں کی ادائیگی میں اخراجات 2 کھرب 60 ارب روپے بڑھ گئے، گھریلو قرضوں پر سود کی ادائیگی میں بھی 829 ارب روپے کی بچت ہوئی۔

مجموعی طور پر حکومت نے غیر ملکی و ملکی قرضوں اور ان پر سود کی ادائیگی کے لیے 33 کھرب 85 ارب روپے خرچ کیے، جب کہ اس مقصد کے لیے 33 کھرب 84 ارب روپے مختص کیے گئے تھے، یعنی 4 ارب روپے سے کچھ زیادہ کا اضافہ ہوا۔

حکومت نے غیر ملکی قرضوں کے لیے 4 کھرب 98 ارب روپے مختص کیے تھے، لیکن صرف 3 کھرب 20 ارب روپے خرچ کیے، جس سے ایک کھرب 70 ارب روپے کی بچت ہوئی، غیر ملکی قرضوں کے سود کی مد میں ایک کھرب روپے خرچ کیے گئے۔

اسی طرح، مختصر مدتی غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کے لیے 29 ارب 50 کروڑ روپے خرچ کیے گئے، جب کہ مقامی قرضوں کی مد میں حکومت نے 19 کھرب روپے کے مقابلے میں 2 کھرب 60 ارب روپے زائد ادا کیے، تاہم 829 ارب روپے کی بچت سود کی مد میں ممکنہ طور پر پالیسی ریٹ میں کمی کی وجہ سے ہوئی۔

فنڈز کا غیر استعمال

غیر ملکی قرضوں کی مد میں ہونے والی بچت کے علاوہ فنانس کے شعبے نے گرانٹس، سبسڈیز اور متفرق کیٹیگری میں 216 ارب روپے بچائے، جب کہ وزارت اقتصادی امور نے متفرق مد میں مختص 7 ارب 70 کروڑ روپے استعمال نہیں کیے۔

فنڈز کے عدم استعمال نے فلاحی اقدامات کو بھی متاثر کیا، جیسے غربت میں کمی اور ہاؤسنگ سیکٹر، غربت کے خاتمے اور سماجی تحفظ کے شعبے نے اپنی مختص رقم میں سے ایک ارب 64 کروڑ روپے خرچ نہیں کیے۔

ہاؤسنگ سیکٹر کی کارکردگی بھی مایوس کن رہی، نیا پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی نے ایک ارب 10 کروڑ روپے خرچ نہیں کیے، جب کہ ہاؤسنگ اینڈ ورکس کا شعبہ بھی ایک ارب روپے استعمال کرنے میں ناکام رہا، حالانکہ وفاقی دارالحکومت میں شدید رہائشی بحران موجود ہے۔

مجموعی طور پر حکومت نے تقریباً 2 کھرب روپے کی بچت کی، جن میں غیر ملکی قرضوں کی مد میں کی گئی بچت بھی شامل ہے، جب کہ جن محکموں نے مختص بجٹ سے زائد رقم خرچ کی، ان کا مجموعی اضافہ تقریباً 2 کھرب 85 ارب روپے رہا، جس میں سے 2 کھرب 60 ارب روپے صرف مقامی قرضوں کی اضافی ادائیگی میں گئے۔

’اضافی اخراجات‘ کا جواز

یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان اعداد و شمار میں محکموں کے ترقیاتی اخراجات شامل نہیں ہیں اور یہ معلومات اکاؤنٹنٹ جنرل پاکستان ریونیو (اے جی پی آر) کے نظام سے 16 مئی 2025 تک حاصل کردہ ڈیٹا پر مبنی ہیں۔

جن محکموں نے مختص رقم سے زائد اخراجات کیے، ان کے لیے گرانٹس کی منظوری آئندہ بجٹ کی منظوری کے دوران آئین کے آرٹیکل 82 کے تحت قومی اسمبلی میں پیش کی جائے گی۔

آرٹیکل 82 (1) اُن اخراجات سے متعلق ہے جو وفاقی مجموعی فنڈ سے ادا ہوتے ہیں اور جن پر بحث تو کی جاسکتی ہے، لیکن ان پر ووٹنگ نہیں ہوسکتی، جب کہ دیگر تمام گرانٹس آرٹیکل 82 (2) کے تحت قومی اسمبلی میں ووٹ کے ذریعے منظور کی جائیں گی۔

کارٹون

کارٹون : 15 دسمبر 2025
کارٹون : 14 دسمبر 2025