• KHI: Clear 25.4°C
  • LHR: Partly Cloudy 18.3°C
  • ISB: Partly Cloudy 13.1°C
  • KHI: Clear 25.4°C
  • LHR: Partly Cloudy 18.3°C
  • ISB: Partly Cloudy 13.1°C

ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل کے دباؤ پر ایران سے متعلق موقف کیسے بدلا؟

شائع June 18, 2025
— فائل فوٹو: رائٹرز
— فائل فوٹو: رائٹرز

اسرائیل کی فوجی سرگرمیوں اور وہاں کی سیاسی قیادت کے درمیان ہونے والی گفتگو کی نگرانی پر مامور امریکی خفیہ ایجنسیاں گزشتہ ماہ کے اختتام تک ایک حیران کن نتیجے پر پہنچیں کہ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو ایران کے جوہری پروگرام پر فوری حملے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں، چاہے امریکا اس میں شامل ہو یا نہ ہو۔

امریکی اخبار ’نیو یارک ٹائمز‘ میں شائع رپورٹ کے مطابق نیتن یاہو کئی برسوں سے خبردار کرتے آرہے تھے کہ ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکنے کے لیے فیصلہ کن فوجی کارروائی ضروری ہے، مگر ہر بار، امریکی صدور کی مخالفت پر وہ پیچھے ہٹ جاتے تھے، لیکن اس بار امریکی تجزیہ یہ تھا کہ نیتن یاہو حملے کے لیے مکمل طور پر تیار ہیں اور اکیلے ہی آگے بڑھنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

ٹرمپ مشکل فیصلوں کا سامنا کرتے ہیں

صدر ٹرمپ، جو ایران کے ساتھ سفارتی معاہدے کے ذریعے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کر رہے تھے، نیتن یاہو کی اپریل میں حملے کی درخواست کو پہلے ہی مسترد کر چکے تھے، مگر جب مئی کے آخر میں ان کی ایک تلخ ٹیلی فون کال ہوئی، تب بھی انہوں نے اسرائیل کو یکطرفہ حملے سے باز رہنے کا انتباہ دیا۔

تاہم گزشتہ چند ہفتوں کے دوران ٹرمپ انتظامیہ کے اعلیٰ حکام کے لیے یہ بات روز بروز واضح ہوتی جا رہی تھی کہ وہ اس بار نیتن یاہو کو روکنے کے قابل نہیں ہوں گے، جیسا کہ اس معاملے پر غور و خوض میں شامل اہم افراد اور دیگر باخبر ذرائع سے انٹرویوز میں سامنے آیا، اسی دوران ٹرمپ ایران سے تنگ آ چکے تھے۔

اسرائیلی دعووں کے برخلاف امریکی انتظامیہ کے سینئر حکام کو ایسی کوئی نئی خفیہ معلومات حاصل نہیں ہوئیں جن سے ظاہر ہو کہ ایران تیزی سے ایٹم بم بنانے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن جب یہ واضح ہو گیا کہ وہ نیتن یاہو کو روکنے کے قابل نہیں رہیں گے اور اب حالات پر ان کا کنٹرول نہیں رہا، تو ٹرمپ کے مشیروں نے مختلف متبادل راستوں پر غور کیا۔

رپورٹ کے مطابق ایک طرف یہ تجویز تھی کہ کچھ نہ کیا جائے اور صرف یہ دیکھا جائے کہ حملے کے بعد ایران کس حد تک کمزور ہوا ہے، پھر اس کے بعد اگلے اقدامات طے کیے جائیں، دوسری انتہا پر اسرائیل کے ساتھ مل کر فوجی حملے میں شامل ہونا تھا، حتیٰ کہ ایران میں حکومت کی تبدیلی تک کا امکان بھی زیر غور تھا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ٹرمپ نے درمیانی راستہ اختیار کیا انہوں نے اسرائیل کو امریکی خفیہ اداروں کی جانب سے اب تک خفیہ رکھی گئی مدد فراہم کی تاکہ وہ حملہ انجام دے سکے، اور پھر تہران پر دباؤ بڑھایا گیا کہ وہ مذاکرات کی میز پر فوری رعایتیں دے ورنہ مسلسل فوجی حملوں کا سامنا کرے، اسرائیل کے حملے کے پانچ دن بعد بھی، ٹرمپ کا موقف مسلسل بدل رہا ہے۔

ٹرمپ امریکی طیارے بھیجنے پر غور کر رہے ہیں

اب ٹرمپ سنجیدگی سے اسرائیلی لڑاکا طیاروں کو ایندھن فراہم کرنے اور ایران کی زیر زمین جوہری تنصیب ’فردو‘ کو تباہ کرنے کے لیے 30 ہزار پاؤنڈ وزنی بم استعمال کرنے پر غور کر رہے ہیں۔

یہ اسرائیلی حملے تک ٹرمپ اور نیتن یاہو کے درمیان کے واقعات کی کہانی ہے جو ایران کو ایٹم بم حاصل کرنے سے روکناکا مشترکہ مقصد رکھتے ہیں، لیکن ایک دوسرے کی نیتوں پر شک بھی کرتے ہیں۔

امریکا، اسرائیل اور خلیج فارس کے خطے کے دو درجن اہلکاروں سے انٹرویوز سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹرمپ کئی مہینوں تک اس کشمکش میں مبتلا رہے کہ آیا نیتن یاہو کے ارادوں پر قابو پایا جائے یا نہیں، کیونکہ وہ اپنی دوسری مدتِ صدارت کے پہلے بڑے خارجہ پالیسی بحران کا سامنا کر رہے تھے، یہ ایک ایسا بحران تھا جس کا وہ سامنا ایسے مشیروں کے ایک نسبتاً ناتجربہ کار حلقے کے ساتھ کر رہے تھے جنہیں انہوں نے وفاداری کی بنیاد پر چنا تھا۔

منگل کی صبح جب وہ کینیڈا میں جی7 اجلاس سے جلدی واپس واشنگٹن روانہ ہوئے، تو ٹرمپ نے اپنی ڈائریکٹر آف نیشنل انٹیلی جنس تلسی گببارڈ، کی عوامی گواہی کے ایک حصے پر اعتراض کیا، انہوں نے کہا تھا کہ انٹیلی جنس کمیونٹی کو یقین نہیں کہ ایران واقعی ایٹمی ہتھیار بنا رہا ہے، اگرچہ وہ یورینیم کی افزودگی جاری رکھے ہوئے ہے جسے بعد ازاں ایٹمی ہتھیار بنانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

ٹرمپ نے رپورٹرز سے کہا کہ ’مجھے پرواہ نہیں کہ اُس نے کیا کہا، میں سمجھتا ہوں کہ وہ اس کے بہت قریب تھے‘۔

جب وائٹ ہاؤس سے اس بارے میں تبصرے کے لیے کہا گیا تو ترجمان نے ٹرمپ کے ان بیانات کی طرف اشارہ کیا جن میں انہوں نے کہا تھا کہ ایران کو ایٹمی ہتھیار حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

8 جون کی شام ٹرمپ نے کیمپ ڈیوڈ میں اعلیٰ مشیروں سے ملاقات کی، تو سی آئی اے ڈائریکٹر جان ریٹکلف نے دوٹوک تجزیہ پیش کیا۔

بریفنگ سے آگاہ 2 افراد نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ جان ریٹکلف نے کہا کہ یہ بہت ممکن ہے کہ اسرائیل جلد ہی ایران پر حملہ کر دے، چاہے امریکا ساتھ دے یا نہ دے۔

ٹرمپ کے مشیر اس لمحے کے لیے پہلے ہی سے تیاری کر رہے تھے، مئی کے آخر میں انہوں نے ایسی انٹیلی جنس دیکھی تھی جس سے انہیں خدشہ تھا کہ اسرائیل ایران پر بڑے حملے کی تیاری کر رہا ہے۔

اسرائیل نے دسمبر میں ایران پر حملے کی تیاری شروع کر دی تھی

اس انٹیلی جنس کی بنیاد پر نائب صدر جے ڈی وینس اور مارکو روبیو، جو کہ وزیر خارجہ اور مشیر قومی سلامتی کے عہدے رکھتے ہیں، نے صدر کو فوری فیصلے لینے میں مدد دینے کے لیے مختلف ممکنہ اقدامات کی تیاری پر زور دیا تاکہ امریکا کی شمولیت کی حد و دائرہ طے کیا جا سکے۔

کیمپ ڈیوڈ اجلاس کے اگلے دن، 9 جون کو، ٹرمپ نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو سے فون پر بات کی، نیتن یاہو بالکل واضح تھے کہ مشن شروع ہو چکا ہے۔

اس فون کال سے واقف 3 افراد کے مطابق نیتن یاہو نے بڑے واضح انداز میں اپنے عزائم بیان کیے، انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ اسرائیلی فورسز پہلے ہی ایران میں موجود ہیں۔

ٹرمپ، اسرائیلی فوجی منصوبہ بندی کی ذہانت سے متاثر ہوئے، اگرچہ انہوں نے کوئی وعدہ نہیں کیا لیکن فون کال کے بعد انہوں نے اپنے مشیروں سے کہا کہ مجھے لگتا ہے ہمیں اس کی مدد کرنا پڑے گی۔

اس کے باوجود ٹرمپ اس بات پر تذبذب کا شکار رہے کہ آگے کیا کیا جائے، وہ نیتن یاہو کے بجائے ایران کو اپنے طریقے سے قابو میں رکھنا چاہتے تھے، وہ ہمیشہ اپنی ڈیل بنانے کی صلاحیت پر اعتماد رکھتے تھے، لیکن اب انہیں یقین ہونے لگا تھا کہ ایرانی حکومت وقت گزارنے کے لیے ٹال مٹول سے کام لے رہی ہے۔

ٹرمپ اپنی جماعت کے کچھ غیر مداخلت پسند عناصر کی رائے سے اتفاق نہیں کرتے تھے، جن کے خیال میں امریکا ایران کے جوہری بم کے ساتھ بھی گزارا کر سکتا ہے، اگر اسے قابو میں رکھا جائے، اس کے برعکس وہ نیتن یاہو کے اس نظریے سے متفق تھے کہ ایران اسرائیل کے وجود کے لیے ایک خطرہ ہے۔

اسرائیل نے دسمبر میں ایران پر حملے کی تیاری شروع کر دی تھی، جب ایران کی حامی تنظیم حزب اللہ کا بڑا حصہ تباہ ہو چکا تھا اور شامی صدر بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ ہو چکا تھا، جس کے نتیجے میں اسرائیل کو فضائی حملوں کے لیے فضائی راستے میسر آ گئے تھے۔

نیتن یاہو کا فروری میں دورہ امریکا

نیتن یاہو نے ٹرمپ کی دوسری مدت صدارت میں 4 فروری کو وائٹ ہاؤس کا پہلا دورہ کیا۔

نیتن یاہو نے اوول آفس میں ٹرمپ کو ایران کے بارے میں ایک پریزنٹیشن دی، جس میں انہوں نے ملک کے مختلف جوہری مراکز کی تصاویر دکھائیں۔

اسرائیلی انٹیلی جنس نے ظاہر کیا کہ ایران جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی جانب پہلے سے زیادہ جلدی اور غیر محتاط انداز میں بڑھ رہا ہے، اور جتنا ایران کمزور ہو رہا ہے، وہ بم کے اتنا ہی قریب جا رہا ہے۔

اسرائیلیوں نے ٹرمپ کے سامنے ایک اور دلیل بھی رکھی کہ اگر آپ سفارت کاری میں کامیابی چاہتے ہیں تو آپ کو حملے کی تیاری رکھنی ہو گی، تاکہ مذاکرات کے پیچھے ایک حقیقی قوت موجود ہو، داخلی طور پر اسرائیلیوں کو خدشہ تھا کہ ٹرمپ ایران کے ساتھ ایسا معاہدہ کر لیں گے جو ان کے نزدیک ناکافی ہوگا، اور پھر وہ (ٹرمپ) اُسے مشن کی کامیاب تکمیل قرار دے دیں گے۔

نومبر میں اپنی جیت کے بعد ٹرمپ نے اپنے قریبی دوست اسٹیو وٹکوف کو مشرق وسطیٰ کے لیے اپنا ایلچی مقرر کیا اور انہیں ایران کے ساتھ معاہدہ کرنے کی ذمہ داری دی۔

ٹرمپ جانتے تھے کہ وہ ایک خطرناک سیاسی میدان میں داخل ہو رہے ہیں، اسرائیل-ایران مسئلہ ٹرمپ کے سیاسی اتحاد کو تقسیم کرتا ہے، ایک طرف غیر مداخلت پسند دھڑا ہے، جس کی قیادت بااثر پوڈکاسٹ میزبان ٹکر کارلسن جیسی میڈیا سے وابستہ شخصیات کرتی ہیں جبکہ دوسری طرف ریڈیو میزبان مارک لیون جیسے ایران مخالف قدامت پسند ہیں۔

تاہم، حکومت کے اندر نظریاتی اختلافات اب اتنے اہم نہیں رہے جتنے ٹرمپ کی پہلی مدت صدارت میں تھے، جب وزیردفاع جم میٹس اور وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن جیسے عہدیدار صدر کو غیر ذمہ دار سمجھتے تھے اور ان کے جذبات پر قابو پانے کی کوشش کرتے تھے۔

اپریل میں، ٹرمپ کی ٹیم نے عمان میں مذاکرات کا ایک سلسلہ شروع کیا، جن میں امریکی وفد کی قیادت وٹکوف نے کی جبکہ ان کے ساتھ محکمہ خارجہ کے ڈائریکٹر برائے پالیسی پلاننگ مائیکل اینٹن بھی شامل تھے۔ مئی کے آخر تک ٹرمپ کی ٹیم نے ایرانیوں کو ایک تحریری تجویز پیش کی۔

اس تجویز میں ایران سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ بالآخر یورینیم کی افزودگی مکمل طور پر بند کر دیں، اور ایک علاقائی اتحاد کے قیام کی تجویز دی گئی تھی، جو جوہری توانائی پیدا کرے گا اور ممکنہ طور پر اس میں ایران، امریکا اور دیگر خلیجی ریاستیں شامل ہوں گی۔

ٹرمپ کو سفارتی حل کی تلاش تھی

اگرچہ ٹرمپ سفارتی حل کی کوشش کر رہے تھے، لیکن وہ ایک بات پر قائل نظر آتے تھے جو اسرائیلیوں نے انہیں کہی تھی کہ ایران کے ساتھ مذاکرات میں کامیابی کے لیے ان کے پاس قابلِ اعتبار فوجی آپشنز ہونا ضروری ہیں۔

فروری کے وسط تک، اسرائیل کے ساتھ ہم آہنگی کے ساتھ سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل مائیکل ایرک کُوریلا نے 3 بڑے فوجی آپشنز تیار کر لیے تھے، پہلا اور کم ترین آپشن یہ تھا کہ امریکا اسرائیلی مشن کو ایندھن اور انٹیلی جنس کی مدد فراہم کرے ، دوسرا آپشن یہ تھا کہ اسرائیل اور امریکا مشترکہ حملہ کریں جبکہ تیسرا اور سب سے بڑا آپشن امریکا کی قیادت میں ایک بڑا مشن تھا، جس میں اسرائیل کو معاون کردار دیا جانا تھا۔

اس آپشن میں امریکی بی ون اور بی ٹو بمبار طیاروں، طیارہ بردار جہاز اور آبدوزوں سے کروز میزائل کے حملے شامل تھے، لیکن جب اسٹیو وٹکوف تہران سے مذاکرات میں مصروف تھے، تو اسرائیلی قیادت بےصبری دکھانے لگی۔

اپریل میں نیتن یاہو نے وائٹ ہاؤس کا ایک مختصر دورہ کیا، دیگر درخواستوں کے ساتھ انہوں نے امریکا سے یہ بھی مانگا کہ وہ اسرائیلی فوج کو ’بنکر بسٹر‘ بم فراہم کرے تاکہ وہ ’فردو‘ میں واقع زیرِ زمین جوہری تنصیب کو تباہ کر سکیں۔

ٹرمپ اس درخواست سے قائل نہ ہوئے اور ملاقات کے بعد آنے والے دنوں میں ان کی ٹیم نے پوری کوشش کی کہ اسرائیل ایران پر پیشگی حملے نہ کرے۔

صدر کو خدشہ تھا کہ اگر نیتن یاہو کو ان کا (ٹرمپ کا) معاہدہ پسند نہ آیا تو اسرائیل یکطرفہ حملہ کر دے گا یا ان کی سفارت کاری کو سبوتاژ کر دے گا، ٹرمپ کی ٹیم کو یہ بھی تشویش تھی کہ اگر اسرائیل ایران پر حملے کرے لیکن اس کی تمام جوہری تنصیبات کو تباہ نہ کر سکے تو پھر کیا ہوگا۔

جون کا آغاز ہوتے ہی اسٹیو وٹکوف نے ساتھیوں کو بتایا کہ امریکا اور ایران ایک معاہدے کے قریب پہنچ چکے ہیں، مگر 4 جون کو ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے امریکی تجویز کو مسترد کر دیا، مشیروں کے مطابق ٹرمپ کو لگنے لگا تھا کہ ایرانی سنجیدہ نہیں ہیں۔

عوامی سطح پر ٹرمپ اب بھی سفارت کاری کو موقع دینے کی بات کر رہے تھے، اگرچہ اس کا مقصد ایران کو اسرائیل کے ممکنہ حملے کے بارے میں گمراہ کرنا نہیں تھا، لیکن ایک امریکی عہدیدار کے مطابق اگر اس سے ایران کسی حد تک بے خبر یا غیر محتاط رہتا تو وہ اسے خوش آئند سمجھتے۔

لیکن گزشتہ بدھ کو کسی بھی سفارتی پیش رفت کا کوئی اشارہ نہیں ملا، اور اُس وقت تک ٹرمپ کے قریبی مشیر جان چکے تھے کہ حملہ اگلے دن شروع ہو جائے گا۔

ٹرمپ کا اسرائیل کو بنکر بسٹر بموں کی فراہمی پر غور

جمعرات کی شام حملوں کی ابتدا کے وقت صدر ٹرمپ اپنے قومی سلامتی کے مشیروں کے ہمراہ وائٹ ہاؤس کے سیچویشن روم میں موجود تھے، اور وہ اب بھی اپنے آپشنز کھلے رکھے ہوئے تھے، اسی دن صبح وہ اپنے مشیروں اور قریبی حلقوں سے کہہ رہے تھے کہ وہ اب بھی ایران کے ساتھ کوئی معاہدہ چاہتے ہیں۔

حملوں کے بعد انتظامیہ کی جانب سے پہلا سرکاری بیان صدر ٹرمپ کے بجائے مارکو روبیو کی طرف سے آیا، جس میں انہوں نے امریکا کو اسرائیلی کارروائی سے الگ ظاہر کیا اور کسی اتحادی کے ساتھ کھڑے ہونے کا ذکر نہیں کیا، حالانکہ امریکی انٹیلی جنس پہلے ہی اسرائیل کو مدد فراہم کر رہی تھی۔

لیکن جیسے جیسے رات گزر رہی تھی اور اسرائیلی فورسز ایرانی عسکری قیادت اور اسٹریٹیجک مقامات پر درست نشانے لگا رہی تھیں، ٹرمپ نے اپنے عوامی مؤقف پر نظرِ ثانی شروع کر دی۔

جب وہ جمعے کی صبح جاگے تو فاکس نیوز مسلسل اسرائیلی فوج کی ’عسکری ذہانت‘ کی تصویریں نشر کر رہا تھا، ٹرمپ اس موقع کو استعمال کیے بغیر نہ رہ سکے اور خود کو اس کامیابی کا حصہ ظاہر کرنے لگے۔

صحافیوں سے فون کالز میں ٹرمپ نے اشارے دیے کہ اس جنگ میں ان کا پسِ پردہ کردار عوامی تصور سے کہیں بڑا تھا، نجی طور پر انہوں نے کچھ قریبی مشیروں کو بتایا کہ اب وہ سنگین سطح پر کارروائی میں اضافے پر غور کر رہے ہیں، یعنی وہ اسرائیل کی اس دیرینہ درخواست پر غور کرہے ہیں کہ امریکا طاقتور ’بنکر بسٹر‘ بم فراہم کرے تاکہ ایران کی فردو میں موجود زیرِ زمین جوہری تنصیب کو تباہ کیا جا سکے۔

کارٹون

کارٹون : 15 دسمبر 2025
کارٹون : 14 دسمبر 2025