اسرائیل کا امریکا کے بغیر ایران کے فردو نیوکلیئر سائٹ پر حملے کا فیصلہ
اسرائیلی حکام نے ٹرمپ انتظامیہ کو بتایا ہے کہ وہ ایران کے جوہری پروگرام کے اہم حصوں کو تباہ کرنے کے کسی ممکنہ معاہدے کے لیے 2 ہفتے انتظار نہیں کرنا چاہتے اور اسرائیل مقررہ ڈیڈ لائن سے پہلے خود بھی کارروائی کر سکتا ہے۔
غیر ملکی خبررساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق 2 باخبر ذرائع نے بتایا ہے کہ یہ پیشرفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹیم میں اس بات پر بحث جاری ہے کہ آیا امریکہ کو ایران-اسرائیل جنگ میں مداخلت کرنی چاہیے یا نہیں۔
ذرائع کے مطابق جمعرات کو ایک فون کال کے دوران اسرائیل نے امریکی حکام کو اپنے خدشات سے آگاہ کیا، فون کال کے دوران تناؤ کی صورتحال پیدا ہوگئی تھی۔
سیکیورٹی ذرائع نے بتایا کہ اس فون کال میں اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو، وزیر دفاع اسرائیل کاتز اور فوجی سربراہ ایال زمیر شامل تھے۔
اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ فردو میں واقع ایران کی جوہری تنصیبات (جو ایک پہاڑ کے اندر گہرائی میں قائم ہیں) کو نشانہ بنانے کے لیے ان کے پاس وقت بہت کم ہے اور امریکا واحد ملک ہے جس کے پاس ایسے ’بنکر بسٹنگ‘ بم ہیں جو اس گہری تنصیب کو تباہ کر سکتے ہیں۔
واشنگٹن میں موجود ایک ذریعے نے بتایا کہ اسرائیل نے امریکی انتظامیہ کو آگاہ کیا ہے کہ صدر ٹرمپ کی طرف سے دیا گیا 2 ہفتے کا وقت بہت طویل ہے اور فوری کارروائی ضروری ہے۔
تاہم یہ واضح نہیں ہو سکا کہ آیا یہ پیغام اعلیٰ سطح کی کال کے دوران دیا گیا یا نہیں۔
اس کال کے دوران امریکی نائب صدر جے ڈی وینس نے اسرائیلی مؤقف کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ امریکا کو براہ راست مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسرائیلی اقدامات امریکا کو جنگ میں گھسیٹ سکتے ہیں، اس دوران فون کال پر امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگستھ بھی شریک تھے۔
رائٹرز کے مطابق یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اس کال میں اور کون شریک تھا، جو کہ اس وقت ہوئی جب صدر ٹرمپ نے عوامی سطح پر کہا تھا کہ اسرائیل کے پاس فردو کو تنہا تباہ کرنے کی صلاحیت موجود نہیں۔
اگرچہ وزیراعظم نیتن یاہو نے فردو پر اسرائیلی حملے کے امکان کو عوامی طور پر مسترد نہیں کیا، لیکن حکام کی جانب سے اس سلسلے میں کوئی تفصیلات بھی فراہم نہیں کی گئیں۔
4 ذرائع کے مطابق اب یہ امکان بڑھ رہا ہے کہ اسرائیل فردو پر خود سے حملہ کرے گا۔
2 ذرائع کا کہنا ہے کہ ایران کے بیشتر علاقوں پر اسرائیلی فضائی برتری اس آپریشن کو ممکن بناتی ہے، اگرچہ یہ اب بھی ایک خطرناک اقدام ہو گا۔
ایک ذریعے نے کہا کہ اسرائیلی اس وقت خود کو برتری میں سمجھتے ہیں اور جنگ کے اخراجات کے پیش نظر ان کے پاس وقت محدود ہے، میرا نہیں خیال صہیونی ریاست زیادہ دیر انتظار کرے گی۔
یہ واضح نہیں کہ اسرائیلی آپریشن میں زمینی فوج کے ذریعے کارروائی کرے گا یا صرف فضائیہ کا استعمال کرے گا۔
2 ذرائع نے کہا ہے کہ اسرائیل ممکن ہے کہ فردو کے پورے کمپلیکس کو مکمل طور پر تباہ کرنے کے بجائے صرف اندرونی اہم ڈھانچوں کو نقصان پہنچائے۔
ایک ذریعے کے مطابق، “یہ بھی ممکن ہے کہ وہ سائٹ کی بیرونی عمارت کو نہیں بلکہ اس کے اندر موجود جوہری آلات اور دیگر حساس تنصیبات کو نشانہ بنائیں، تاہم، اس نے مزید تفصیلات دینے سے گریز کیا۔
ایران پر حملے سے متعلق ٹرمپ کے حمایتی اتحاد میں اختلافات
ایران پر ممکنہ امریکی حملے کے امکانات نے اس اتحاد میں دراڑیں ڈال دی ہیں جس نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اقتدار میں لانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
ٹرمپ کے کئی نمایاں حمایتی اب امریکا کو مشرق وسطیٰ کی ایک نئی جنگ میں شامل کرنے کے خلاف مشورہ دے رہے ہیں۔
جنوبی کیرولائنا کے سینیٹر اور ٹرمپ کے اتحادی لِنزی گراہم سمیت دیگر ریپبلکن رہنما امید ظاہر کر چکے ہیں کہ ٹرمپ اسرائیل کو ایران کے جوہری پروگرام کو مکمل طور پر تباہ کرنے میں مدد فراہم کریں گے۔
خیال رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں وعدہ کیا تھا کہ وہ امریکا کو ’بیوقوفانہ‘ غیر ملکی جنگوں سے دور رکھیں گے۔
تاہم، وہ اب خود بھی مخمصے کا شکار دکھائی دیتے ہیں کہ آیا وہ اسرائیل کے ایران پر حملے میں شامل ہوں یا ایران کے جوہری پروگرام کو ختم کرنے کے لیے سفارتی کوششوں پر توجہ مرکوز رکھیں۔
البتہ حالیہ دنوں میں ٹرمپ کے ایران مخالف بیانات میں سختی دیکھی گئی ہے، جس سے امریکی پالیسی میں جارحانہ تبدیلی کے آثار پیدا ہوئے ہیں۔
اس حوالے سے وائٹ ہاؤس نے اس معاملے پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے جب کہ اسرائیلی وزیر اعظم کے دفتر اور اقوام متحدہ میں ایران کے مشن نے بھی فوری طور پر کوئی ردعمل نہیں دیا۔