امریکا نے حملوں میں تذویراتی غلطیاں کیں، اب ایران کی باری ہے، امریکی تھنک ٹینک
ایران کے فردو، نطنز اور اصفہان کے جوہری مراکز پر امریکا کے حالیہ بمباری کے بعد (جسے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شاندار عسکری کامیابی قرار دیا) امریکی تھنک ٹینک ’اٹلانٹک کونسل‘ کے ماہرین کی آرا اس کارروائی کو کہیں زیادہ پیچیدہ اور متضاد انداز میں پیش کرتی ہیں۔
تہران ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق امریکی اندرونی حلقوں کے بیانات میں طاقت کے مظاہرے کے بجائے گہری تشویش، تذویراتی غیر یقینی، اور ایران کی مسلسل مزاحمت کے ضمن میں ایک غیر اعلانیہ اعتراف جھلکتا ہے، ایسی مزاحمت جو نہ صرف اسرائیل بلکہ اس کے سب سے بڑے اتحادی، یعنی امریکا کی مسلسل جارحیت کے باوجود قائم ہے۔
یہ امر قابل غور ہے کہ 1961 میں قائم ہونے والی ’اٹلانٹک کونسل‘ مغربی دنیا کے تذویراتی بیانیے تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کرتی ہے، ٹرانس اٹلانٹک پالیسی کی علمبردار سمجھی جاتی ہے۔
اب ایران کی باری ہے
اٹلانٹک کونسل کے اسکوکرافٹ مڈل ایسٹ سیکیورٹی انیشی ایٹو کے ڈائریکٹر جوناتھن پینیکوف نے خبردار کیا ہے کہ اب ایران کی باری ہے، اور انہوں نے ایران کی ممکنہ جوابی کارروائی کے 2 راستے بتائے، محدود ردعمل یا وسیع تر تصادم۔
جوناتھن پینیکوف کا یہ اعتراف کہ ایران کی عسکری صلاحیتیں کمزور تو ہوئی ہیں مگر مکمل طور پر ختم نہیں ہوئیں، امریکی بیانیے کے اس دعوے کو جھٹلاتا ہے کہ یہ مکمل فتح تھی۔
ان کا یہ خدشہ کہ تہران کمزوری ظاہر کرنے سے بچنے کے لیے جوابی حملہ کر سکتا ہے، ایران کے دیرینہ مؤقف کی تصدیق کرتا ہے کہ اس کی حکمتِ عملی دفاعی ہے اور قومی وقار پر مبنی ہے۔
فتح کا اعلان، مگر عدم تحفظ کا اعتراف
اٹلانٹک کونسل کے اسکوکرافٹ سینٹر کے نائب صدر میتھیو کرونگ نے امریکی حملے کو ’سرد جنگ کے بعد امریکا کی سب سے بڑی خارجہ پالیسی کامیابی‘ قرار دیا، تاہم ساتھ ہی یہ بھی مانا کہ سابقہ امریکی حکومتیں اس مسئلے کا سفارتی حل تلاش کرنے میں ناکام رہیں اور صرف امریکا ہی ایران کی مضبوط جوہری تنصیبات کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔
ان کی باتوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ فتح نہیں، بلکہ مذاکراتی ناکامی کے بعد طاقت کے استعمال کا اعتراف ہے۔
اسرائیل میں سابق امریکی سفیر ڈینیئل بی۔ شاپیرو نے ایسے حالات میں جنہیں ایران کے لیے ہتھیار ڈالنے کے مترادف کہا جا سکتا ہے، امریکی حملوں کو ایران کو مذاکرات کی میز پر لانے کا موقع قرار دیا، تاکہ ایران اپنے اتحادیوں کی حمایت بند، میزائل پروگرام ترک کرے، اور جوہری سرگرمیوں کو مستقل طور پر ختم کردے۔
تاہم تاریخ گواہ ہے کہ ایران نے ہمیشہ دباؤ میں ثابت قدمی دکھائی ہے، اطاعت نہیں کی۔
تیل کی عالمی منڈی متاثر نہیں ہوئی
ان کا یہ انداز بتاتا ہے کہ امریکی پالیسی میں انسانی جانوں یا بین الاقوامی قانون کے بجائے معیشت کو ترجیح دی جاتی ہے، وہی شکوہ جو عالمی جنوب اکثر دہراتا ہے۔
ایران کی شناخت اور عزم برقرار
سابق سی آئی اے افسر اور اٹلانٹک کونسل کے سینئر فیلو ایلن پینو نے تسلیم کیا کہ ایران نے اپنے جوہری پروگرام کو اپنی قومی شناخت کا حصہ بنا رکھا ہے, اور وہ دھمکیوں کے تحت اسے ترک نہیں کرے گا۔
ان کا یہ کہنا کہ یہ حملہ روس اور چین کے لیے پیغام ہے، ایران کی عالمی سطح پر اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔
اٹلانٹک کونسل کی سیکیورٹی ماہر ٹریسا گونوو نے اعتراف کیا کہ یہ معلوم کرنے میں وقت لگے گا کہ آیا امریکa واقعی کامیاب ہوا یا نہیں, انہوں نے خبردار کیا کہ ایران سائبر حملوں یا پراکسی جنگ کے ذریعے جواب دے سکتا ہے۔
ان کا بیان اس حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام کا مبینہ ’خاتمہ‘ شاید صرف نمائشی ہو نہ کہ حقیقی۔
امریکی حملہ تنازع کو بڑھا سکتا ہے
اٹلانٹک کونسل کے ایران اسٹریٹجی پروجیکٹ سے وابستہ ڈینی اسٹرینووچ نے اعتراف کیا کہ یہ حملہ جنگ کو ختم کرنے کے بجائے بڑھا سکتا ہے، اسرائیل چاہتا ہے کہ امریکا مزید اقدامات کرے، لیکن اگر امریکا پیچھے ہٹ گیا اور ایران مضبوط رہا تو یہ طویل جنگ کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔
یہ بیان اس وسیع تر امریکی حکمتِ عملی کو بے نقاب کرتا ہے، جس میں ایران کو خود ایک ہدف نہیں بلکہ ایک وسیلہ سمجھا گیا ہے، عالمی طاقت کے کھیل میں مہرہ۔
آخری بات
اگرچہ اٹلانٹک کونسل کے ماہرین نے ایران پر امریکی حملے کا دفاع کرنے اور اسے سراہنے کی کوشش کی، لیکن ان کے بیانات میں پایا جانے والا تضاد اور ابہام اس حقیقت کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ کارروائی کسی تذویراتی کامیابی کے بجائے امریکی بے چینی، ابہام اور زوال پذیر اثرورسوخ کی علامت تھی۔
دوسری جانب، ایرانی حکام نے واضح کیا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پرامن جوہری ٹیکنالوجی حاصل کرنے کے اپنے خودمختار حق پر قائم ہے، اور وہ اپنے عوام کی غیر ملکی جارحیت سے حفاظت کرنے کا عزم رکھتا ہے۔
گزشتہ 10 دن کے دوران شدید عسکری دباؤ کے باوجود، ایران کی علاقائی حیثیت اور عالمی کردار پر آنچ نہیں آئی، اور ایرانی عوام نے ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ وہ ان سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے جو ان پر دور دراز کے دارالحکومتوں سے مسلط کی گئی ہیں، جنہیں نہ خطے کی پرواہ ہے، نہ امن کی۔