اداریہ: ’امریکا کی نئی جنگ کے پوری دنیا پر سنگین جغرافیائی-سیاسی و معاشی اثرات مرتب ہوں گے‘

شائع June 23, 2025
—تصویر: رائٹرز
—تصویر: رائٹرز

ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کرکے امریکا نے ایک طویل اور تباہ کُن جنگ کا عمل شروع کردیا ہے جو پوری دنیا پر جغرافیائی-سیاسی اور معاشی اعتبار سے اثرانداز ہوگی۔

اس سے قبل اپریل میں بھی جب عمان کی ثالثی میں امریکا اور ایران کے درمیان جوہری معاملے پر بات چیت جاری تھی تو ایرانی سپریم لیڈر نے ’مخالف فریق‘ پر ’بے اعتمادی‘ کا اظہار کیا تھا۔ جیسا کہ ثابت ہوا کہ ان کی مایوسی بےوجہ نہیں تھی۔ سفارت کاری کو ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہوئے، اسرائیل اور امریکا نے اسلامی جمہوریہ کے خلاف ایک ایسی جارحانہ مہم شروع کردی ہے جو بین الاقوامی نظام کی بنیادیں تک ہلا سکتی ہے۔

اگرچہ اسرائیل نے 13 جون کو ایران پر اچانک اپنے حملوں کا آغاز کیا لیکن سب سے زیادہ متوقع امریکی حملے اتوار کو شروع ہوئے۔ بہ ظاہر 3 ایرانی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ حملے جاری رکھنے کی دھمکیاں دیں جب تک کہ ایران امریکا کی شرائط پر امن قائم نہیں کرتا۔ امریکی حملوں کے بعد ٹرمپ نے کہا، ’اب امن کا وقت ہے‘۔ لیکن ایسا بالکل نہیں اور وقت کے ساتھ یہ واضح ہوگا۔

بہت سے حلقے بحث کرتے ہیں کہ امریکی-اسرائیلی عسکری مہم مکمل طور پر ایران کے جوہری ہتھیاروں کے بارے میں نہیں حالانکہ ایران تو جوہری ہتھیار بنانے کی تردید کرتا ہے یا ان ’خطے کو غیرمستحکم کرنے والی سرگرمیوں‘ کو بھی مسترد کرتا ہے جن میں ملوث ہونے کا الزام مغربی بلاک تہران پر لگاتا ہے۔

مسلم ممالک اور گلوبل ساؤتھ میں بہت سی اقوام کے خیال میں یہ تنازع دراصل ایک ایسے مسلم ملک کو سزا دینے کے بارے میں ہے جو امریکی طاقت کو ماننے سے انکار کرتا ہے جسے مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ معتبر ذرائع کا کہنا ہے کہ ایران ایٹم بم نہیں بنا رہا تھا لیکن جب طاقتور سلطنت نافرمان قوم کو ’سزا‘ دینے کا فیصلہ کرتی ہے تو ان حقائق سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ دوہرا معیار اس وقت واضح ہوتا ہے جب جوہری ہتھیاروں سے لیس اسرائیل ایک اور ملک پر جوہری ہتھیاروں کے حصول کا الزام لگاتا ہے۔

اگر دنیا میں کوئی ایسی ریاست ہے جس کے بارے میں عالمی برادری کو بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار رکھنے کے بارے میں فکر مند ہونا چاہیے تو وہ اسرائیل ہے جس نے غزہ میں نسل کشی کی ہے اور جو اپنے تقریباً تمام ہمسایوں کے خلاف جارحیت کا مرتکب ہے۔ لیکن مغربی بلاک میں منافقت جاری ہے جہاں وہ ایران پر تنقید کرتے ہیں جبکہ اسرائیل کی حمایت کرتے ہیں۔ درحقیقت برطانیہ کی طرح انہوں نے بھی ایران پر امریکی حملوں کو پردے کے پیچھے سراہا۔

یہ پوری عالمی برادری کے لیے سنگین خطرے کا لمحہ ہے۔ تمام نظریں اس بات پر ہیں کہ ایران کب اور کیسے جوابی کارروائی کرتا ہے۔ ایرانی مجلس نے آبنائے ہرمز بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

اگر ایران امریکی افواج کے خلاف فوری فوجی کارروائی نہیں بھی کرتا تب بھی آبنائے ہرمز کی بندش امریکا کو جواب دینے پر مجبور کرسکتی ہے جو خود کو دنیا کا محافظ سمجھتا ہے اور تجارتی راستے کھلے رکھنا چاہتا ہے۔ اگر امریکی تنصیبات یا اہلکاروں کر نشانہ بنایا جاتا ہے تو کشیدگی میں تیزی سے اضافہ ہوگا۔

اس معاملے کو ایک بڑی تباہی میں بدلنے سے روکنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ امریکا اور اسرائیل ایران کے خلاف اپنی جارحیت فوری طور پر روکیں اور بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کریں۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

اداریہ

کارٹون

کارٹون : 4 دسمبر 2025
کارٹون : 3 دسمبر 2025