ٹرمپ کی فریب اور دوغلے پن پر مبنی چال، ایران کا ممکنہ ردعمل کیا ہوگا؟

شائع June 23, 2025

ڈونلڈ ٹرمپ کے تمام وعدے کہ وہ امریکا کو مزید جنگوں میں نہیں دھکیلیں گے، ایران کی جوہری تنصیبات پر حملوں کا حکم دے کر انہوں نے امریکا کو ایک اور جنگ میں جھونک دیا ہے۔ ایران کے خلاف عسکری مہم میں اسرائیل کے ساتھ شامل ہوکر امریکا نے بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی دھجیاں بکھیر دی ہیں اور خطے کو ایسی دلدل میں دھکیل دیا ہے جس سے مزید کشیدگی کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔

دو جوہری ممالک کی جانب سے جوہری طاقت نہ رکھنے والے ایک ملک پر حملہ کرنے کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی حالانکہ اس ملک نے تو جوہری عدم پھیلاؤ (این پی ٹی) کے معاہدے پر بھی دستخط کیے ہوئے ہیں۔ ایران یا دیگر ممالک صورت حال کو قریب سے دیکھ رہے ہیں۔

امریکی بمباری سے چند روز پہلے یہ قیاس آرائیاں تیز ہوگئی تھیں کہ اگرچہ امریکا خطے میں اپنی فوجیں تعینات کرکے عسکری کارروائی کے لیے تیار ہو رہا ہے لیکن ٹرمپ نے پھر بھی پُرامن حل کے لیے اپنے دروازے کھلے رکھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے خود کہا تھا کہ وہ دو ہفتوں میں اس حوالے سے کوئی فیصلہ کریں گے جس سے یہ تاثر گیا کہ سفارتکاری کے لیے ابھی وقت باقی ہے۔ لیکن یہ فریب اور دوغلے پن پر مبنی ایک چال نکلی۔

جیسے ہی امریکی جنگی طیاروں نے فردو، نطنز اور اصفہان میں ایرانی جوہری مقامات کو نشانہ بنایا، اس نے ڈونلڈ ٹرمپ کے اس دعوے کی قلعی کھول دی کہ وہ امن ساز بننا چاہتے ہیں۔ اس نے ان لوگوں کو بھی شرمندہ کیا جنہوں نے ان پر بھروسہ کیا۔

رات گئے اپنے خطاب میں ٹرمپ نے اعلان کیا کہ امریکی حملے ’شاندار کامیابی‘ تھے اور ایران کی جوہری تنصیبات کو ’مکمل طور پر تباہ‘ کردیا گیا ہے۔ انہوں نے تہران کو متنبہ کیا کہ امریکا کے خلاف کسی بھی جوابی کارروائی کا جواب اس سے بھی زیادہ طاقت سے دیا جائے گا۔

ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے حملوں کی مذمت کی اور اسے بین الاقوامی قوانین کی اشتعال انگیز خلاف ورزی قرار دیا جس کے ’نہ ختم ہونے والے نتائج‘ ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ ان کا ملک ’اپنی خودمختاری اور اپنے لوگوں کے دفاع کے تمام اختیارات رکھتا ہے‘۔ تہران نے اپنے جوہری پروگرام کو جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے اور امکان ہے کہ وہ بین الاقوامی جوہری نگران ادارے آئی اے ای اے کے ساتھ تعاون ختم کر دے گا۔ ایران نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلانے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔

اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے امریکی حملوں کو ’خطے میں پہلے سے موجود کشیدگی کے خطرناک حد تک بڑھنے اور بین الاقوامی امن و سلامتی کے لیے براہ راست خطرہ‘ قرار دیا۔ انہوں نے اس خطرے کی جانب بھی اشارہ کیا کہ تنازع ’تیزی سے قابو سے باہر ہوسکتا ہے‘ جس کے ’شہریوں، خطے اور دنیا کے لیے تباہ کن نتائج‘ سامنے آئیں گے۔

اگرچہ ایران کو توقع تھی کہ امریکا بھی جنگ میں شامل ہوگا لیکن صورت حال نے اس کی قیادت کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ تہران نے ماضی میں متنبہ کیا تھا کہ اگر واشنگٹن براہ راست تنازع میں ملوث ہوا تو وہ امریکی اڈوں اور تنصیبات پر حملہ کرے گا اور امریکا کو ’ناقابل تلافی نقصان‘ پہنچائے گا مگر یہ اس کے مفاد میں نہیں کہ وہ جنگ کو وسعت دے یا کسی اور امریکی حملے کا خطرہ مول لے۔

اس کے بجائے ایران ممکنہ طور پر وہ کارروائیاں جاری رکھے گا جو وہ پہلے سے جاری اسرائیلی حملوں کے جواب میں کر رہا ہے۔ امریکی بمباری کے بعد اسرائیل نے میزائلز کی نئی لہر شروع کی جبکہ ایران نے بھی اسرائیل پر اپنے میزائل حملے دوگنے کردیے ہیں۔

ایران کس طرح ردعمل کا ظاہر کرتا ہے، اس کا انحصار اس بات پر ہوسکتا ہے کہ امریکی بمباری سے اس کے جوہری مقامات کو کتنا نقصان پہنچا ہے۔ ابھی تک ایرانی حکام نے کہا ہے کہ امریکی بمبار طیاروں کے حملے میں محدود نقصان ہوا ہے اور تنصیبات کے اردگرد مقیم رہائشیوں کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ تہران کے پاس جوہری مواد کسی حد تک متبادل مقام پر منتقل کرنے کا وقت تھا۔

اگر ایران یہ ثابت کرسکتا ہے کہ نقصان محدود تھا اور کوئی ہلاکت نہیں ہوئی تو وہ یہ فیصلہ کرسکتا ہے کہ امریکا پر جوابی حملہ کرنا ضروری ہے یا نہیں، بالخصوص اس کے پاس امریکا سے مقابلہ کرنے جتنی فوجی طاقت نہیں ہے۔ اس کے بجائے وہ غیر فوجی اور سفارتی ردعمل پر توجہ دے سکتا ہے۔

ایک آپشن آبنائے ہرمز کی بندش ہے جس سے تیل کی قیمتیں تیزی سے آسمان کو چھو سکتی ہیں جبکہ یہ توانائی کے عالمی بحران کو جنم دے سکتا ہے۔ اگرچہ ایران کی پارلیمنٹ کی جانب سے اس کی سفارش کی گئی ہے لیکن اس سے ایران کو بھی بھاری نقصان اٹھانا پڑے گا جس کی شاید ایران کی قیادت متحمل نہیں۔ فی الحال ایران کا بنیادی ہدف ٹرمپ کو مزید فوجی حملے کرنے کا جواز فراہم کرنے سے گریز کرنا ہوسکتا ہے۔

اگر یہ کشیدگی ایران کے لیے مخمصے کا باعث بنتی ہے تو یہ ٹرمپ کے لیے بھی ایک خطرناک جوا ہے۔ ایسا نہ صرف اس کے غیر متوقع نتائج کی وجہ سے ہے بلکہ اس لیے بھی ہے کیونکہ یہ امریکا کو کلاسک ’مشن کریپ‘ (ایک ایسی صورت حال جہاں ایک فوجی یا سیاسی مشن بتدریج اپنے اصل اہداف سے ہٹتا چلا جاتا ہے) اور ایسی دلدل میں دھنسا سکتا ہے جس سے نکلنے کا کوئی آسان راستہ نہیں ہے۔ اگرچہ عراق کے تباہ کُن تلخ تجربے کو سبق کے طور پر کام آنا چاہیے تھا لیکن واشنگٹن نے اسے دانستہ طور پر نظرانداز کیا۔

اگر ضرورت پیش آئی تو ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے خلاف فوجی کارروائی کو وسعت دینے کی دھمکی دی ہے یعنی اگر تہران ’تصفیہ‘ کے لیے امریکی شرائط کو قبول نہیں کرتا۔ انہوں نے کہا اگر فوری طور پر ’امن‘ قائم نہیں کیا گیا تو امریکا، ایران میں دیگر اہداف کو نشانہ بنائے گا۔ اس سے ان کا مطلب تہران کی جانب سے سر تسلیم خم کرنا اور اپنے جوہری پروگرام کو مکمل طور پر ترک کرنا ہے۔

لیکن ایران نے سرینڈر کرنے سے انکار کیا ہے جس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکا ایسی جنگ میں مزید دھنس جائے گا جسے شروع کرنے کا فیصلہ اس کا خود کا تھا؟ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ امریکا اور مشرق وسطیٰ دونوں کے لیے سنگین پریشانی کا باعث بن سکتا ہے۔

اس تازہ ترین پیش رفت سے یقینی طور پر سب سے بڑا نقصان دنیا کے سفارتکاری پر اعتماد کو پہنچا ہے۔ ٹرمپ کے امریکا پر بھلا کون بھروسہ کرسکتا ہے کہ جب اس کی انتظامیہ نے عمان کی ثالثی میں ایران کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں معاہدہ کرنے کے لیے شروع سے ہی چالوں اور جھوٹ کا سہارا لیا؟

اب جبکہ ٹرمپ نے کھل کر بات کی ہے تو یہ واضح ہے کہ امریکا شروع سے ہی اسرائیل کی مکمل حمایت کررہا تھا اور ایران کے ساتھ نیک نیتی سے بات چیت نہیں کر رہا تھا۔ اسرائیلی وزیر اعظم کا حوالہ دیتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ وہ ان کے ساتھ ’ایک ٹیم کے طور پر ایسے کام کر رہے ہیں جیسے کہ شاید پہلے کبھی کسی ٹیم نے کام نہیں کیا‘۔

13 جون کو اسرائیل کا ایران پر جارحانہ حملہ امریکا اور ایران کے درمیان عمان میں ہونے والے مذاکرات کے ایک اور دور سے چند روز قبل ہوا تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے خود اعتراف کیا کہ انہیں اسرائیلی حملے کی پیشگی اطلاع تھی۔ انہوں نے نہ صرف اسے روکنے کے لیے کچھ نہیں کیا بلکہ سفارتی راستہ اختیار کرنے کا دکھاوا کرتے ہوئے بنیامن نیتن یاہو کو حملے کے لیے گرین سگنل بھی دیا۔

جیسا کہ ایرانی وزیر خارجہ نے کہا، ’گزشتہ ہفتے ہم امریکا کے ساتھ حالتِ مذاکرات میں تھے کہ جب اسرائیل نے سفارتکاری کو تباہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس ہفتے یورپی یونین کے ساتھ مذاکرات طے کیے تھے کہ جب امریکا نے اسے سبوتاژ کرنے کا فیصلہ کیا‘۔ انہوں نے کہا کہ اب مذاکرات کی میز پر واپسی بےمعنی ہوچکی ہے۔

حالات جس طرح تیزی سے بدل رہے ہیں، اس میں یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ بحران کی صورت حال سے کیسے نمٹا جائے گا۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ امریکا اور اسرائیل کی مشترکہ فوجی کارروائیاں بالآخر ایران کو جوہری ہتھیار بنانے کی جانب راغب کردیں گی۔ موجودہ بحران سے نکلنے کے بعد اس کے پاس اس راستے پر چلنے کے سوا کوئی چارہ نہیں بچا ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ امریکا اور اسرائیل دونوں کے لیے بہت بڑی ناکامی ہوگی۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

ملیحہ لودھی

لکھاری پاکستان کی سابق سفیر برائے امریکا، برطانیہ اور اقوام متحدہ ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 4 دسمبر 2025
کارٹون : 3 دسمبر 2025