پاکستان کو ایف اے ٹی ایف گرے لسٹ میں شامل کرنے کی بھارتی چال ناکام

شائع June 24, 2025

اگرچہ فرانس کے شہر اسٹراسبرگ میں ہونے والے حالیہ پلینری اجلاس کے دوران پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں ڈالے جانے کے امکانات بہت کم تھے لیکن اسلام آباد میں اس حوالے سے کافی تشویش پائی جارہی تھی۔

یہ خوف اس خدشے سے پیدا ہوا کہ بھارت پاکستان کو دوبارہ گرے لسٹ میں دھکیلنے کی کوشش کر سکتا ہے، خاص طور پر اس پس منظر میں جب دونوں ممالک کے درمیان سفارتی کشیدگی میں اضافہ ہوا تھا اور چار روزہ تنازع کے بعد وہ ایک مکمل جنگ کے دہانے تک پہنچ گئے تھے۔

9 مئی کے فوجی تصادم کے بعد بھارت نے پاکستان کے خلاف ایک وسیع سفارتی محاذ کھولا وہ بھی اس امید پر کہ وہ دہشت گردی کے معاملے پر پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کرنے میں کامیاب ہوجائے گا۔ تاہم بھارت اپنا ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ اس کی بہت سی دیگر وجوہات ہوسکتی ہیں لیکن ایک بڑا عنصر یہ تھا کہ اس بار پاک-امریکا تعلقات مختلف نوعیت کے تھے۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے کانگریس سے پہلے خطاب میں انہوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار کو تسلیم کیا اور داعش خراساں کے اہم رہنماؤں کو امریکا کے حوالے کرنے میں اس کی تعریف کی، اس کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات میں تبدیلی آئی تھی۔

امریکا کا مؤقف ایف اے ٹی ایف سمیت دنیا کے بڑے مالیاتی اداروں پرگہرا اثر و رسوخ رکھتا ہے۔ حالیہ اجلاس میں چین بھی پاکستان کے دفاع کے لیے موجود تھا۔ جیسا کہ وہ پہلے بھی کئی بار کر چکا ہے، اس نے ایف اے ٹی ایف کے پلیٹ فارم پر پاکستان کی اضافی حمایت کی۔ دباؤ کا مقابلہ کرنے میں ترکیہ کے کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ گزشتہ اجلاس میں بھی سعودی عرب، خلیج تعاون کونسل کے متعدد رکن ممالک، پرتگال اور جنوبی افریقہ نے بھی پاکستان کی بھرپور حمایت کی تھی۔

بہت سی عالمی تنظیموں کے مقرر کردہ قواعد، تکنیکی اور پیشہ ورانہ معیارات سے قطع نظر، طاقتور ممالک اکثر آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور ایف اے ٹی ایف جیسے اداروں کے فیصلوں پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر برطانیہ، جرمنی، فرانس اور امریکا نے 2018ء میں پاکستان کو بین الاقوامی بینکنگ لین دین میں چند خامیوں اور اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے نامزد دہشت گرد گروہوں اور افراد سے متعلق قانون سازی میں کمی کی وجہ سے گرے لسٹ میں ڈالنے کی لابنگ کی۔

بھارت نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کے خلاف برطانیہ کی زیرِقیادت گروپ میں شامل ہوگیا۔ جواب میں پاکستان نے مطلوبہ معیارات پر پورا اترنے کے لیے سخت محنت کی اور 2022ء تک اس نے تعمیل کے تمام تقاضوں کو کامیابی سے پورا کرلیا۔

سازگار ماحول کے علاوہ اس بار پاکستان نے اپنا مقدمہ پیش کرنے کے لیے بھرپور تیاری اور محنت کی تھی۔ اس کا سہرا اسٹیک ہولڈرز کی جانب سے کی جانے والی تمام اجتماعی کوششوں کو جاتا ہے لیکن نئی قائم کردہ انسدادِ منی لانڈرنگ اور دہشتگردی کی مالی معاونت کو روکنے کی اتھارٹی اور ایف آئی اے نے ایف اے ٹی ایف کی تعمیل اور ترجیحات کو تبدیل کرنے کے حوالے سے اہم متحرک کردار ادا کیا۔

نتیجتاً پاکستان اب نہ صرف اکتوبر میں ایف اے ٹی ایف کے اگلے اجلاس تک بلکہ اگلے چار سالوں میں متوقع اگلے باہمی جائزے تک محفوظ زون میں آچکا ہے۔ یہ باہمی جائزہ یا تشخیص ایک ایسا عمل ہے جہاں ایف اے ٹی ایف کے رکن ممالک منی لانڈرنگ، دہشت گردوں کی مالی معاونت اور ہتھیاروں کے پھیلاؤ کی فنڈنگ سے مقابلہ کرنے کے معیارات پر عمل کے حوالے سے ایک دوسرے کی کوششوں کا جائزہ لیتے ہیں۔

تاہم اپنی موجودہ حیثیت کو برقرار رکھنے کے لیے پاکستان کی مذکورہ بالا اتھارٹی کو مستقبل میں کلیدی کردار ادا کرنے کی ضرورت ہوگی کیونکہ منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت جیسے مزید خطرات سے نمٹنے کے لیے ایف اے ٹی ایف کے اہداف اور قوانین بدلتے رہتے ہیں۔ بھارت سمیت کسی بھی اہم طاقت کے سیاسی اثر و رسوخ کا بہتر طور پر مقابلہ اسی صورت میں کیا جا سکتا ہے کہ اگر پاکستان اپنے مقدمے کا دفاع کرنے کے لیے اچھی طرح تیار ہو۔

ایف اے ٹی ایف کے ساتھ پاکستان کا تجربہ، بین الاقوامی معیارات کے مطابق خود کو ڈھالنے کی اس کی بڑھتی ہوئی صلاحیت کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ کہانی 2017ء میں شروع ہوئی کہ جب منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کی نگرانی کرنے والے ایک علاقائی تنظیم ایشیا پیسیفک گروپ نے پاکستان کو بعض مسائل کے بارے میں خبردار کیا۔ پہلے تو ان انتباہات کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا جس کی وجہ سے برطانیہ، جرمنی، فرانس اور امریکا نے پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھنے کے لیے ایف اے ٹی ایف پر دباؤ ڈالا۔

حکومت نے ایف اے ٹی ایف کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ایک درجن سے زائد قوانین منظور کیے جن میں برطانوی، جرمن اور فرانسیسی خدشات کو دور کرنے کے لیے انسداد دہشتگردی (ترمیمی) ایکٹ اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (ترمیمی) ایکٹ جیسی اہم قانون سازی شامل ہے۔ کالعدم گروہوں سے منسلک اثاثوں کو منجمد کرنے جیسی انتظامی کارروائیوں نے بھی پاکستان کی پیش رفت کو ظاہر کیا۔ اکتوبر 2022ء میں پاکستان نے 2018ء اور 2021ء کے دونوں ایکشن پلان مکمل کر لیے۔

ایک بڑا چیلنج مناسب نگرانی تھا جسے ٹھیک کرنے کے لیے حکومت نے سویلین بیوروکریسی کے ڈھانچے میں ایف اے ٹی ایف سیکرٹریٹ قائم کیا۔ تاہم ایک میجر جنرل کو اس کی قیادت سونپی گئی کیونکہ ایف اے ٹی ایف کے قواعد کی تعمیل محض ایک تکنیکی مسئلہ سے زیادہ بن چکی تھی اور اب اسے قومی سلامتی کے معاملے کے طور پر دیکھا جا رہا تھا جس کے سنگین سیاسی، سفارتی اور تزویراتی نتائج ہیں۔

ایف اے ٹی ایف سیکرٹریٹ کی نگرانی میں اہم ایجنسیز شامل تھیں جن میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان، فنانشل مانیٹرنگ یونٹ، فیڈرل بورڈ آف ریونیو، سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان، نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی (نیکٹا) اور قانون نافذ کرنے والے ادارے شامل تھے۔ ایف بی آر اور قومی احتساب بیورو جیسے اداروں میں انسداد دہشتگردی کی مالی معاونت اور انسداد منی لانڈرنگ کے اقدامات پر تعاون، نگرانی اور نفاذ کے لیے خصوصی سیل قائم کیے گئے تھے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان سمیت ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں شامل کئی ممالک نے اس کی تعمیل کی آڑ میں این جی اوز اور سول سوسائٹی کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائیاں کیں اور تنقیدی آوازوں کو دبایا۔ حالیہ جائزے میں ایف اے ٹی ایف نے اس بات پر زور دیا کہ اس کے قوانین کا مقصد ان کا غلط استعمال نہیں ہے اور یہ غیر منافع بخش تنظیموں پر پابندیاں لگانے کے لیے بلکہ ان کے تحفظ کے لیے بنائے گئے ہیں۔

پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالے جانے کے بعد پاکستان ڈیموکریٹک حکومت حکومت نے 2023ء میں منظور کردہ ایک قانون کے ذریعے ایف اے ٹی ایف سیکرٹریٹ کو باضابطہ طور پر ایک مکمل اتھارٹی بنا دیا۔ انسدادِ منی لانڈرنگ اور دہشتگردی کی مالی معاونت کو روکنے کی اتھارٹی قوانین پر عمل کو یقینی بنانے کی ذمہ دار ہے۔ یہ مختلف گروہوں کو مل کر کام کرنے، ان کی مہارتوں کو بڑھانے، ایکشن پلان پر پیش رفت کا جائزہ لینے اور ایف اے ٹی ایف جیسی بین الاقوامی ریگولیٹری اتھارٹیز کے ساتھ تعاون میں بھی مدد کرتی ہے۔

اب تک اتھارٹی نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ تاہم پاکستان میں مسئلہ یہ ہے کہ پالیسی سازی اور نگرانی کے لیے قائم ہونے والے نئے ادارے اکثر اپنے مقررہ کاموں پر توجہ دینے کے بجائے آپریشنل معاملات میں مداخلت کرنا شروع کردیتے ہیں۔ اگرچہ اتھارٹی طاقتور ہے اور اہم شراکت کرنے کی پوزیشن میں ہے لیکن اسے اپنے مینڈیٹ پر توجہ مرکوز رکھنی چاہیے۔ اگر یہ اتھارٹی آپریشنل کرداروں میں قدم جماتی ہے تو یہ نیکٹا بن سکتی ہے جو نیشنل انٹیلی جنس فیوژن اور تھریٹ اسسمنٹ سینٹر میں ضم ہونے والی ہے۔

ایف اے ٹی ایف ابھرتے ہوئے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے اپنے معیارات کو تیز رفتاری سے تکنیکی اعتبار سے ڈھال رہا ہے۔ ان تبدیلیوں کو مؤثر طریقے سے سنبھالنے کرنے کے لیے پاکستان کو ایک چوکس اور مرکوز نگرانی کے فریم ورک کی ضرورت ہے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

محمد عامر رانا

لکھاری سیکیورٹی تجزیہ نگار ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 4 دسمبر 2025
کارٹون : 3 دسمبر 2025