صدر روزویلٹ سے اوباما تک: ’امریکا اور اسرائیل ہمیشہ سے اتنے قریب نہیں تھے جتنے آج ہیں‘
امریکا اور اسرائیل کے درمیان پائیدار تعلقات ہیں لیکن اس کے باوجود ان کے درمیان تعلقات سب سے زیادہ متنازع بھی ہیں کیونکہ بہت سے ممالک (زیادہ تر غیرمغربی) اسے دنیا بالخصوص مشرقِ وسطیٰ میں عدم استحکام کا باعث سمجھتے ہیں۔
امریکا اسرائیل کو اربوں ڈالرز مالیت کا جدید ترین فوجی سازوسامان فراہم کرتا ہے اور اقوام متحدہ میں اسرائیل کو جارح قرار دینے کی کسی بھی کوشش کی نفی کرنے میں قائدانہ کردار ادا کرتا ہے۔ وہ بلاشبہ بغیر کسی سوال کے اسرائیل کے مؤقف کی حمایت کرتا ہے کہ وہ زیادہ تر معاملات میں مظلوم ہے، مجرم نہیں۔
کچھ تجزیہ کاروں کے مطابق اسرائیل کے ساتھ امریکی تعلقات ان عملی وجوہات سے ہٹ کر ہیں کہ جن کی بنیاد پر عموماً ممالک کے درمیان تعلقات قائم ہوتے ہیں۔ ان تجزیہ کاروں کا اصرار ہے کہ امریکا کی اسرائیل کے لیے ’اندھی حمایت‘ صرف عملی وجوہات کی بنا پر نہیں بلکہ گہرے اقتصادی اور اسٹریٹجک مفادات کی وجہ سے بھی ان کے تعلقات عام سفارت کاری سے بالاتر ہیں۔
جنوری 1982ء میں واشنگٹن پوسٹ نے رپورٹ کیا کہ ’اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسیز نے حساس انٹیلی جنس اور تکنیکی معلومات حاصل کرنے کی کوشش میں امریکی سرکاری ملازمین کو بلیک میل کیا، بگنگ کی، ان کے فون وائر ٹیپ کیے اور انہیں رشوت کی پیشکش کی‘۔
پھر کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو امریکا-اسرائیل تعلقات کو انتہائی سیاہ و سفید کے پیرائے میں دیکھتے ہیں جوکہ ’مانیکیئن‘ نقطہ نظر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ اسلام کو تباہ کرنے کی کوشش میں مغرب اور اسرائیل ایک ’یہودی-عیسائی‘ اتحاد بنا رہے ہیں۔ تاہم مانیکیئن سوچ کا یہ رخ سازشی نظریات سے جڑا ہوا ہے اور حقیقی دنیا کے پیچیدہ مسائل کو اچھے اور برے کے درمیان سادہ تصادم کے طور پر دیکھتا ہے جو اکثر حقیقت سے زیادہ افسانوں پر مبنی ہوتا ہے۔
اگرچہ امریکا-اسرائیل تعلقات کو اکثر مشترکہ اقدار پر مبنی مضبوط شراکت داری کے طور پر بیان کیا جاتا ہے لیکن حقیقت میں ان کی حیثیت ایک عملی، پالیسی پر مبنی تعلقات سے زیادہ ہے۔ لیکن یہ رشتہ اب دباؤ میں ہے کیونکہ دنیا بھر سے اور یہاں تک کہ امریکا سے بھی لوگ اس پر سوال اور تنقید کرنے لگے ہیں۔
امریکا ہمیشہ سے اسرائیل کا اتنا مضبوط حمایتی نہیں تھا جتنا کہ وہ آج ہے۔ امریکی صدر ووڈرو ولسن جو 1913ء سے 1921ء تک اقتدار میں رہے، صہیونیت سے ہمدردی رکھتے تھے لیکن امریکی قانون کے پروفیسر جان این مور کے مطابق، ووڈرو ولسن محض ہمدردی دکھاتے تھے جبکہ انہوں نے کوئی عملی کارروائی نہیں کی۔ صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ (1933ء سے 1945ء) نے تو زبانی ہمدردی دکھانے کی بھی زحمت نہیں کی۔ بلکہ امریکی ماہر سیاسیات ڈاکٹر رابرٹ فریڈمین کا کہنا ہے کہ روزویلٹ دراصل فلسطین میں صہیونی ریاست بنانے کے خلاف تھے۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ 1930ء کی دہائی میں صدر روزویلٹ نے سعودی عرب کی نئی تخلیق شدہ (اور تیل سے مالا مال) مملکت کے ساتھ تعلقات استوار کیے تھے۔ اس وقت تیل کے ذرائع کو محفوظ کرنا امریکا کے لیے صہیونیت کی حمایت سے بہت زیادہ اہم تھا۔ رابرٹ فریڈمین کے قریبی ساتھی کا حوالہ دے کر کہا کہ اگر 1945ء میں روزویلٹ کا انتقال نہ ہوتا تو اسرائیل وجود میں نہ آتا۔
اس کے باوجود جب 1948ء میں اسرائیل وجود میں آیا تو صدر ہیری ایس ٹرومین (1945ء سے 1953ء تک) کی قیادت میں امریکا اسے تسلیم کرنے والے اولین ممالک میں شامل تھا۔ یہ ان کے سیکریٹری آف اسٹیٹ اور سیکریٹری دفاع کی جانب سے ایسا نہ کرنے کے سخت مشورے کے باوجود ہوا۔ تاہم 1948ء کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران ٹرومین نے اسرائیل پر ہتھیاروں کی پابندی بھی عائد کی تھی۔
صدر ڈوائٹ ڈی آئزن ہاور (1953ء سے 1961ء تک) کے دور میں امریکا کا اسرائیل کی جانب رویہ نسبتاً نرم تھا۔ رابرٹ فریڈمین کے مطابق 1950ء کی دہائی میں اسرائیل اپنے زیادہ تر ہتھیار فرانس سے حاصل کرتا تھا، امریکا سے نہیں۔ صدر آئزن ہاور کا بنیادی مقصد عرب ممالک کو سرد جنگ کے دوران سوویت یونین کا ساتھ دینے سے روکنا تھا، اس لیے انہوں نے عرب ممالک کو اپنے خلاف کرنے سے اجتناب کرتے ہوئے اسرائیل سے کسی حد تک فاصلہ رکھا۔
1956ء میں مصر کے عرب قوم پرست رہنما جمال عبدالناصر کی حکومت نے سوئز کنال اور ملک میں برطانوی ماتحت کاروبار کو نیشنالائز (قومیا) کردیا۔ ردعمل کے طور پر اسرائیل، برطانیہ اور فرانسیسی افواج نے مصر پر حملہ کیا۔ آئزن ہاور غصے میں تھے۔ انہوں نے برطانیہ، اسرائیل اور فرانس سے افواج کے انخلا کا مطالبہ کیا اور کہا کہ بصورت دیگر انہیں پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ تینوں نے اپنی افواج مصر سے نکال لیں۔
پھر 1962ء میں صدر جان ایف کینیڈی (1961ء سے 1963ء تک) کی حکومت میں امریکا نے اسرائیل کو ہتھیاروں کی فروخت شروع کی حالانکہ کینیڈی بھی صہیونی ریاست کے حوالے سے کچھ محتاط رہے کیونکہ تیل سے مالا مال امریکا کے عرب اتحادی نہ صرف کمیونسٹ مخالف بلکہ اسرائیل مخالف بھی تھے۔ تاہم ماہر سیاسیات وان پی شینن کا کہنا ہے کہ یہ کینیڈی کا دورِ صدارت ہی تھا کہ جب امریکا نے اسرائیل کو مشرق وسطیٰ میں سوویت یونین کے اثر و رسوخ کو پھیلنے سے روکنے میں مدد کے لیے ایک ممکنہ شراکت دار کے طور پر دیکھنا شروع کیا۔
1967ء میں صدر لنڈن بی جانسن کی قیادت میں امریکا نے اسرائیل کو مصر پر حملہ کرنے سے روکنے کی کوشش کی۔ لیکن اسرائیل نے حملہ کیا اور 6 روزہ جنگ میں اس نے مصر، شام اور اردن کی افواج کو شکست دی۔ مصر اور شام کو سوویت یونین کی حمایت حاصل تھی۔ یہی وہ وقت تھا جب امریکا نے اسرائیل کو مشرق وسطیٰ میں ایک مضبوط کردار اور ایک ’خاص اتحادی‘ کے طور پر دیکھنا شروع کیا۔
1973ء کی مصر-اسرائیل جنگ میں جب مصری فوجیں کچھ بڑی کامیابیاں حاصل کرنے لگیں تو اسرائیل نے امریکی صدر رچرڈ نکسن سے اضافی ہتھیار فراہم کرنے کی درخواست کی۔ اس خدشے کے تحت کہ مصر کی فتح سے علاقے میں سوویت اثر و رسوخ بڑھے گا، رچرڈ نکسن نے منظوری دے دی۔ تاہم اس جنگ میں کوئی واضح فاتح نہیں رہا۔ اس کے بعد امریکا مصر کو اسرائیل کے وجود کو قبول کرنے اور امن معاہدے پر دستخط کرنے پر قائل کرنے میں کامیاب رہا۔ مصر امریکی مدار میں آگیا یعنی اس کے قریب ہوگیا۔
1980ء کی دہائی سے اسرائیل کے لیے امریکی سیاسی، مالی اور فوجی امداد میں کئی گنا اضافہ ہوا اور دونوں نے لیبیا، ایران، شام اور عراق میں اسرائیل مخالف یا امریکا مخالف حکومتوں اور بائیں بازو کی جانب جھکاؤ رکھنے والی فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) کو ختم کرنے کے لیے مشترکہ طور پر کام کیا۔ بعض اوقات انتہائی دائیں بازو کے اسلام پسند گروہوں کو اس مقصد کے لیے سہولت فراہم کی جاتی تھی۔
مگر بعض مواقع پر امریکا نے اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی روکی۔ ان میں 1981ء میں جب اسرائیل نے عراق پر حملہ اور 1982ء میں اسرائیل کی حمایت یافتہ ملیشیاؤں کی جانب سے امریکی ہتھیاروں کا استعمال کرتے ہوئے، لبنان میں سیکڑوں فلسطینی پناہ گزینوں کا قتل عام شامل ہے۔
1990ء کی دہائی میں انتہائی دائیں بازو کے صہیونیوں کی ناراضی کے باوجود امریکی صدر بل کلنٹن اسرائیل اور پی ایل او کے درمیان امن معاہدہ کروانے میں کامیاب ہوئے۔ تاہم 9/11 کے حملوں کے بعد اسرائیل کی امریکی امداد میں واضح اضافہ ہوا۔ باراک اوباما (2008ء سے 2015ء تک) کے دورِ صدارت میں امریکا اور اسرائیل کے درمیان تعلقات اس وقت قدرے کشیدہ ہوگئے کہ جب اوباما نے انتہائی دائیں بازو کے اسرائیلی آباد کاروں کو فلسطینیوں کی زمین چھیننے سے روکنے کی کوشش کی۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی پہلی صدارتی مدت میں امریکا کے ساتھ اسرائیل کے قریبی تعلقات رہے اور یہ جو بائیڈن کی صدارت تک برقرار رہے۔ امریکا اسرائیل کو مشرق وسطیٰ میں ’استحکام‘ برقرار رکھنے کے لیے ایک اہم کھلاڑی کے طور پر دیکھتا ہے، خاص طور پر یہ ایران جیسے ممالک، حزب اللہ اور حماس جیسے گروپوں کے خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے اسے اہم سجھتا ہے۔
امریکا کی دو طاقتور ترین اسرائیل نواز لابی، امریکی اسرائیل پبلک افیئر کمیٹی (اے آئی پی اے سی) اور کرسچن یونائیٹڈ فار اسرائیل کا امریکی پالیسی پر کافی اثر و رسوخ ہے۔
لیکن حال ہی میں حماس، حزب اللہ اور ایران کے خلاف اسرائیل کے یکطرفہ اور سخت اقدامات نے امریکا کو زیادہ محتاط، ’انتظار اور دیکھو‘ کا رویہ اختیار کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ اسرائیل ان ’دشمنوں‘ کو شکست دینے کی بھرپور کوشش کررہا ہے لیکن رائے عامہ زیادہ اسرائیل کے خلاف جارہی ہے۔ مارچ 2025ء کے گیلپ سروے میں صرف 46 فیصد امریکیوں نے اسرائیل کی حمایت کا اظہار کیا۔
اسرائیلی کارروائیاں بے لگام ہو چکی ہیں اور امکان ہے کہ مشرق وسطیٰ پہلے سے بہت زیادہ غیرمستحکم ہو جائے گا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی دوسری میعاد میں امریکا اس بات کے بارے میں بے یقینی کا شکار لگتا ہے کہ وہ اس شراکت دار سے کیسے نمٹے جو قابو سے باہر ہو اور امریکی معیشت پر مضبوط اثر و رسوخ رکھنے کا دعویٰ کرتا ہو۔ اب یہ اسرائیل کے حالیہ اقدامات کے نتائج پر منحصر ہے کہ امریکا اور اسرائیل کے تعلقات دوبارہ نئے سرے سے ترتیب دیے جاتے ہیں یا نہیں۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔