• KHI: Sunny 26.5°C
  • LHR: Partly Cloudy 21°C
  • ISB: Partly Cloudy 22°C
  • KHI: Sunny 26.5°C
  • LHR: Partly Cloudy 21°C
  • ISB: Partly Cloudy 22°C

کراچی کی عدالت نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کیخلاف اندراج مقدمہ کی درخواست مسترد کردی

شائع July 3, 2025
عدالت نے کہا کہ برسر اقتدار صدر کےخلاف مقدمے سے سخت امریکی ردعمل جنم لے سکتا ہے — فائل فوٹو: اے ایف پی
عدالت نے کہا کہ برسر اقتدار صدر کےخلاف مقدمے سے سخت امریکی ردعمل جنم لے سکتا ہے — فائل فوٹو: اے ایف پی

کراچی کی سیشن کورٹ نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج کرنے کی درخواست مسترد کر دی، درخواست گزار کا مؤقف تھا کہ ایران کی جوہری تنصیبات پر بمباری کا حکم دے کر صدر ٹرمپ نے پاکستان بھر میں خوف و ہراس پھیلایا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق درخواست گزار جمشید علی خواجہ (جو خود کو انٹرنیشنل لائرز فورم (آئی ایل ایف) کے 100 ارکان کا نمائندہ بتاتے ہیں) نے فوجداری ضابطہ اخلاق (سی آر پی سی) کی دفعہ 22 اے کے تحت اپنے وکیل سید جعفر عباس کے ذریعے عدالت سے رجوع کیا تھا۔

انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ ڈاکس تھانے کے اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) کو ہدایت دی جائے کہ وہ ان کا بیان ریکارڈ کرے، اور صدر ٹرمپ کے خلاف 21 اور 22 جون کی شب ایرانی جوہری تنصیبات پر بمباری کرنے پر ایف آئی آر درج کرے۔

اپنی درخواست میں وکیل نے مؤقف اپنایا تھا کہ امریکی صدر نے 21 اور 22 جون کی شب جدید B-2 بمبار طیاروں کے ذریعے ایرانی جوہری تنصیبات پر حملہ کیا، جس سے عالمی سطح پر خوف پھیل گیا اور مبینہ طور پر 100 آئی ایل ایف ارکان سمیت کروڑوں مسلمانوں کو ذہنی اذیت پہنچی، جو 48 گھنٹوں تک جاری رہی۔

درخواست میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ پاکستان، بالخصوص ڈاکس تھانے کی حدود میں، امریکی بحریہ کے جنگی جہازوں کی موجودگی اور سندھ کے ساحلی علاقے میں مشتبہ سرگرمیوں کے باعث شدید خوف پھیل گیا تھا۔

دلائل سننے کے بعد، ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج (ویسٹ) عامرالدین نے ابتدائی طور پر ہی درخواست کو غیر متعلقہ اور بے بنیاد قرار دے کر مسترد کر دیا۔

تفصیلی فیصلے میں عدالت نے نوٹ کیا کہ ایرانی جوہری تنصیبات پر بمباری کا حکم امریکی صدر نے بطور کمانڈر اِن چیف امریکی آئین کے آرٹیکل 2 کے تحت اپنے سرکاری اختیارات کے تحت دیا۔

عدالت نے امریکی سپریم کورٹ کے نظائر اور ویانا کنونشن برائے سفارتی تعلقات 1961 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ امریکی صدر کو ہیڈ آف اسٹیٹ امیونٹی حاصل ہے۔

پاکستانی فوجداری قانون کا حوالہ دیتے ہوئے جج نے کہا کہ پاکستان کی علاقائی حدود سے باہر ہونے والے جرائم پر ملکی قانون کے تحت ایف آئی آر درج نہیں کی جا سکتی۔

جج نے لکھا کہ ایکس آفیشیو جسٹس آف پیس کو کسی موجودہ امریکی صدر کے خلاف قانونی کارروائی کا اختیار حاصل نہیں، جو بین الاقوامی قانون اور معاہداتی ذمہ داریوں کے تحت استثنیٰ رکھتے ہیں، اس لیے ایسی کارروائی کا آغاز نہ صرف قانونی طور پر ناقابلِ عمل ہے، بلکہ اس کے لیے ملزم کی جسمانی موجودگی یا حوالگی بھی درکار ہوگی، جو کہ ممکن نہیں۔

عدالت نے مزید مشاہدہ کیا کہ کسی برسرِاقتدار امریکی صدر کے خلاف پاکستان میں فوجداری مقدمہ درج کرنا ایک سنگین سفارتی خلاف ورزی ہوگی، جو ممکنہ طور پر امریکا کے سخت ردِ عمل کو جنم دے سکتی ہے۔

عدالت نے 2013 میں پشاور ہائی کورٹ کے امریکی ڈرون حملوں سے متعلق فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستانی اعلیٰ عدالتوں نے ہمیشہ ایسے حساس سیاسی معاملات میں عدالتی احتیاط کا مظاہرہ کیا ہے، خصوصاً جب دائرہ اختیار کا سوال موجود ہو۔

عدالت نے کہا کہ اگرچہ ڈرون حملوں کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا گیا ہے، تاہم کسی امریکی عہدیدار کے خلاف کبھی فوجداری کارروائی کا آغاز نہیں کیا گیا۔

کارٹون

کارٹون : 17 دسمبر 2025
کارٹون : 16 دسمبر 2025