• KHI: Partly Cloudy 16.6°C
  • LHR: Partly Cloudy 12.1°C
  • ISB: Partly Cloudy 12.9°C
  • KHI: Partly Cloudy 16.6°C
  • LHR: Partly Cloudy 12.1°C
  • ISB: Partly Cloudy 12.9°C

پروڈکشن ہاؤسز سے فقیروں کی طرح پیسے مانگنے پڑتے ہیں، سید محمد احمد

شائع July 13, 2025
—اسکرین شاٹ
—اسکرین شاٹ

سینئر اداکار و لکھاری سید محمد احمد نے انکشاف کیا کہ زیادہ تر پروڈکشن ہاؤسز فنکاروں کو ان کی محنت کا معاوضہ وقت پر ادا نہیں کرتے اور ادائیگی کرتے وقت فقیروں جیسا برتاؤ کیا جاتا ہے۔

سید محمد احمد نے حال ہی میں انسٹاگرام پر ایک ویڈیو جاری کی، جس میں انہوں نے پاکستانی شوبز انڈسٹری میں ادائیگیوں میں تاخیر کے مسئلے پر آواز بلند کرتے ہوئے کہا کہ ایک یا دو پروڈکشن ہاؤسز کے علاوہ کوئی بھی پروڈکشن ہاؤس وقت پر ادائیگی نہیں کرتا۔

انہوں نے کہا کہ پراجیکٹ ختم ہونے کے تین یا چار ماہ تک ادائیگی نہیں کی جاتی اور جب ادائیگی کی جاتی ہے تو وہ بھی اس وقت جب ہم خود پروڈکشن ہاؤسز سے پیسوں کا تقاضا کرتے ہیں۔

سید محمد احمد کے مطابق پیسے مانگنے پر ایسا رویہ اختیار کیا جاتا ہے گویا وہ ہم پر کوئی بہت بڑا احسان کر رہے ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ ادائیگی کے وقت ہمارے ساتھ جو رویہ اختیار کیا جاتا ہے، اس سے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ہم بھکاری ہوں، حالانکہ ہم بھی دن رات محنت کرتے ہیں اور اس کے باوجود کوئی گارنٹی نہیں ہوتی کہ ہمیں وقت پر ادائیگی کی جائے گی یا نہیں۔

اداکار نے مزید کہا کہ پہلے لوگ اپنی مالی حالت پر بات کرتے ہوئے شرمندگی محسوس کرتے تھے، لیکن اب یہ ایک مجبوری بن چکی ہے، ہمیں اپنی خودداری، انا اور عزتِ نفس مارنی پڑتی ہے تاکہ ان پروڈکشن ہاؤسز سے اپنا حق وصول کیا جا سکے۔

انہوں نے ہدایت کارہ مہرین جبار کا بھی شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے یہ مسئلہ اٹھایا، جو انڈسٹری کے اُن تمام افراد کا مشترکہ درد ہے جو دن رات محنت کرتے ہیں لیکن بدلے میں نہ عزت ملتی ہے اور نہ ہی وقت پر معاوضہ۔

مہرین جبار کا انتباہ

قبل ازیں ایوارڈ یافتہ ہدایت کارہ مہرین جبار نے ایک انٹرویو کے دوران کہا تھا کہ امریکا جیسے ممالک میں بھی ڈراما انڈسٹری میں ہزاروں مسائل ہوں گے، لیکن وہاں معاوضہ وقت پر ملتا ہے، جب کہ پاکستان میں اپنا حق مانگنے کے لیے بھیک مانگنی پڑتی ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ یہ مسئلہ صرف اداکاروں تک محدود نہیں بلکہ ہدایت کاروں، سپاٹ بوائز اور لائٹنگ ٹیکنیشنز سمیت ہر فرد اس سے متاثر ہوتا ہے، کسی سے بھی پوچھ لیں، ہر کسی کے پاس کوئی نہ کوئی دردناک کہانی ضرور ہوگی، یہ مسئلہ ہر چینل اور پروڈکشن ہاؤس میں پایا جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ عملے کے وہ افراد جو کم معاوضہ لیتے ہیں اور جنہیں یونینز یا کسی قانون کا تحفظ حاصل نہیں، وہ سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں، وہ سب سے زیادہ محنت کرتے ہیں لیکن سب سے زیادہ نقصان بھی انہیں ہی اٹھانا پڑتا ہے۔

مہرین جبار نے مزید کہا تھا کہ صرف برانڈ اسپانسرڈ شوٹس یا چھوٹے کارپوریٹ منصوبے ہی ایسے ہیں جہاں کچھ حد تک معیار اور ادائیگی کا خیال رکھا جاتا ہے۔

یہ مسئلہ نیا نہیں

خیال رہے کہ یہ پہلی بار نہیں کہ فنکاروں نے عدم ادائیگی یا تاخیر شدہ ادائیگی کے خلاف آواز اٹھائی ہو۔

گزشتہ سال دسمبر میں ڈراما سیریل ’دنیا پور‘ کے اداکار رمشا خان اور خوشحال خان نے بھی بی بی سی ایشین نیٹ ورک کو دیے گئے ایک انٹرویو میں اس مسئلے پر بات کی تھی۔

انہوں نے کہا تھا کہ انہیں وقت پر ادائیگی ملی، لیکن یہ ایک استثنا تھا، معمول نہیں۔

خوشحال خان کا کہنا تھا کہ وقت پر ادائیگی نہ کرنا بے ادبی ہے، کیونکہ ہم وقت پر سیٹ پر پہنچتے ہیں، جب کہ رمشا خان کا کہنا تھا کہ انہیں اپنے بلوں کی ادائیگی کرنا ہوتی ہے۔

رمشا خان نے انکشاف کیا تھا کہ وہ کئی بار اس وقت تک سیٹ پر نہیں جاتیں جب تک انہیں اپنی بقایا رقم ادا نہ کر دی جائے۔

دونوں اداکاروں نے انڈسٹری میں اتحاد کے فقدان کو ایک بڑا مسئلہ قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ اگر وہ کچھ بول بھی دیں، تو دیگر اداکار اس پر خاموشی اختیار کر لیتے ہیں، انڈسٹری میں کوئی اتحاد موجود نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 14 دسمبر 2025
کارٹون : 13 دسمبر 2025