• KHI: Partly Cloudy 21.4°C
  • LHR: Partly Cloudy 14.5°C
  • ISB: Cloudy 12.9°C
  • KHI: Partly Cloudy 21.4°C
  • LHR: Partly Cloudy 14.5°C
  • ISB: Cloudy 12.9°C

ٹرمپ کی دھمکی کے باوجود پیوٹن یوکرین سے جنگ جاری رکھیں گے، خبر ایجنسی

شائع July 15, 2025
فائل فوٹو: ایکس
فائل فوٹو: ایکس

روسی صدر ولادیمیر پیوٹن یوکرین میں جنگ اُس وقت تک جاری رکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں جب تک مغرب اُن کی شرائط پر امن مذاکرات پر راضی نہیں ہوتا، اور سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مزید سخت پابندیوں کی دھمکیوں کے باوجود اُن کی علاقائی مطالبات میں اضافہ بھی ہوسکتا ہے۔

عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق ذرائع نے بتایا ہے کہ پیوٹن، جنہوں نے فروری 2022 میں روسی فوج کو یوکرین میں داخل ہونے کا حکم دیا تھا، جبکہ اس سے پہلے آٹھ سال تک یوکرین کے مشرق میں روس نواز علیحدگی پسندوں اور یوکرینی فوج کے درمیان لڑائی جاری رہی تھی، کا ماننا ہے کہ روس کی معیشت اور فوج اتنی مضبوط ہے کہ وہ مغرب کی مزید پابندیوں کا مقابلہ کرسکے گی۔

خیال رہے کہ ٹرمپ نے پیر کے روز پیوٹن کے جنگ بندی پر آمادہ نہ ہونے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے یوکرین کو ہتھیار فراہم کرنے کا اعلان کیا، جس میں پیٹریاٹ میزائل سسٹمز بھی شامل ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے دھمکی دی تھی کہ اگر 50 دن میں امن معاہدہ نہ ہوا تو روس پر مزید پابندیاں لگائی جاسکتی ہیں۔

کریملن کی اعلیٰ سطحی سوچ سے واقف تین روسی ذرائع نے کہا کہ پیوٹن مغرب کے دباؤ میں آکر جنگ نہیں روکیں گے اور ان کا ماننا ہے کہ روس، جس نے مغرب کی سخت ترین پابندیوں کا مقابلہ کیا ہے ، مزید معاشی مشکلات کا سامنا کرسکتا ہے، جن میں روسی تیل کے خریداروں پر امریکی ٹیرف بھی شامل ہیں۔

ایک ذریعہ نے رائٹرز کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’ پیوٹن سمجھتے ہیں کہ یوکرین میں امن کے معاملے پر کسی نے ان سے سنجیدگی سے بات نہیں کی، بشمول امریکیوں کے، اس لیے وہ اپنی مرضی پوری ہونے تک جاری رکھیں گے۔’

ذرائع کے مطابق، ٹرمپ اور پیوٹن کے درمیان کئی بار ٹیلی فونک گفتگو اور امریکی ایلچی اسٹیو وِٹکوف کے روس دورے کے باوجود پیوٹن سمجھتے ہیں کہ ابھی تک امن منصوبے کی بنیاد پر کوئی تفصیلی بات چیت نہیں ہوئی۔

ذرائع نے کہا کہ’ پیوٹن ٹرمپ کے ساتھ تعلقات کو اہمیت دیتے ہیں اور وِٹکوف کے ساتھ ان کی بات چیت بھی اچھی رہی، لیکن روس کے مفادات سب سے اوپر ہیں۔’

وائٹ ہاؤس کی ترجمان اینا کیلی نے رائٹرز کو بتایا کہ سابق صدر جو بائیڈن کی پالیسیوں کی وجہ سے جنگ شروع ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ’بائیڈن کے برعکس صدر ٹرمپ خونریزی روکنے پر توجہ دے رہے ہیں، اور اگر پیوٹن نے جنگ بندی پر اتفاق نہ کیا تو انہیں سخت پابندیوں اور ٹیرف کا سامنا کرنا ہوگا۔’

صدر ولادیمیر زیلنسکی نے کہا ہے کہ یوکرین روس کی طرف سے قبضہ کیے گئے علاقوں کو کبھی تسلیم نہیں کرے گا اور نیٹو میں شامل ہونے کے فیصلے کا حق محفوظ رکھے گا، اس خبر پر زیلنسکی کے دفتر نے کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

دوسرے ذریعہ کے مطابق پیوٹن کے لیے ماسکو کے مقاصد مغربی دباؤ سے ہونے والے ممکنہ معاشی نقصان سے کہیں زیادہ اہم ہیں، اور وہ چین اور بھارت پر روسی تیل خریدنے کی وجہ سے امریکی ٹیرف کی دھمکیوں سے پریشان نہیں۔

دو ذرائع نے کہا کہ روس کو میدان جنگ میں برتری حاصل ہے اور اس کی جنگی معیشت نیٹو اتحاد کے مقابلے میں اہم ہتھیاروں جیسے توپ خانے کے گولے زیادہ پیدا کر رہی ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ پیوٹن یوکرین کی دفاعی لائن ٹوٹنے تک لڑتے رہیں گے اور اگر زیادہ مزاحمت نہ ملی تو دنیپروپیٹرووسک، سومی اور خارکیف کے مزید علاقے بھی قبضے میں لے سکتے ہیں۔

تیسرے ذریعہ نے کہا کہ ’ روس یوکرین کی کمزوری کو بنیاد بنا کر اقدامات کرے گا، اگر یوکرین کی مزاحمت سخت ہوئی تو روس مشرقی علاقوں پر قبضے کے بعد رک سکتا ہے، لیکن اگر دفاع ٹوٹا تو مزید علاقے لیے جائیں گے۔’

یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی کا کہنا ہے کہ روسی افواج کی گرمیوں کی پیش قدمی اتنی کامیاب نہیں جتنی ماسکو نے امید کی تھی، یوکرین کی فوجی قیادت مانتی ہے کہ روسی فوجی تعداد میں زیادہ ہیں لیکن یوکرینی فوج انہیں بھاری نقصان پہنچا رہی ہے۔

امریکا کے مطابق، جنگ میں اب تک 12 لاکھ لوگ زخمی یا ہلاک ہو چکے ہیں جو دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ کی سب سے ہلاکت خیز لڑائی ہے۔ روس اور یوکرین دونوں اپنی فوجی ہلاکتوں کے مکمل اعدادوشمار ظاہر نہیں کرتے اور ماسکو مغربی اندازوں کو پراپیگنڈا کہتا ہے۔

ٹرمپ، جنہوں نے جنوری میں دوبارہ وائٹ ہاؤس واپس آئے ہیں اور جنگ کا جلد خاتمہ کرنے کا وعدہ کیا تھا، روس کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور پیوٹن سے کم از کم چھ بار فون پر بات کر چکے ہیں، پیر کو انہوں نے پیوٹن کو ’ قاتل نہیں بلکہ سخت گیر انسان’ قرار دیا تھا۔

ڈیموکریٹ صدر جو بائیڈن سے ہٹ کر، ٹرمپ کی انتظامیہ نے اس جنگ کو امریکا اور روس کے درمیان پراکسی جنگ قرار دیا ہے، یوکرین کی نیٹو رکنیت کی حمایت واپس لے لی ہے اور کریمیا کے روس کے ساتھ الحاق کو تسلیم کرنے کی تجویز بھی دی ہے۔

پیوٹن اس جنگ کو مغرب کے ساتھ روس کے تعلقات میں ایک اہم موڑ قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ سرد جنگ کے بعد مغرب نے نیٹو کو توسیع دے کر روس کو ذلیل کیا ہے، جس میں یوکرین اور جارجیا بھی شامل ہیں۔

پیوٹن نے ابھی تک ٹرمپ کی غیر مشروط جنگ بندی کی پیشکش قبول نہیں کی، جسے کییف نے فوراً قبول کر لیا تھا، حالیہ دنوں میں روس نے یوکرینی شہروں پر سیکڑوں ڈرون حملے کیے ہیں۔

ایک ذریعے کا کہنا تھاکہ آنے والے مہینوں میں بحران میں شدت آ سکتی ہے اور دنیا کی دو سب سے بڑی ایٹمی طاقتوں کے درمیان کشیدگی کے خطرات بڑھ سکتے ہیں، اور اُن کا کہنا تھا کہ جنگ جاری رہے گی۔

کارٹون

کارٹون : 13 دسمبر 2025
کارٹون : 12 دسمبر 2025