ٹوٹ پھوٹ کا شکار پی ٹی آئی کی ملک گیر احتجاج کی کال کیا تبدیلی لاسکتی ہے؟
بھارت کے ساتھ 4 روزہ تنازع کے تناظر میں مختصر وقفے کے بعد حکومت اور اپوزیشن ایک بار پھر ایک دوسرے کے خلاف محاذ بنا چکی ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) جسے دیوار سے لگا دیا گیا تھا، ایک بار پھر سڑکوں پر آنے کی دھمکی دے رہی ہے۔ دوسری جانب سیاسی جماعت کے غیرملکی حامی بین الاقوامی فورمز پر پاکستان میں ’سیاسی ظلم‘ کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔
مبینہ طور پر ’پاکستان کی حکومت کی جانب سے حزب اختلاف کی سیاسی شخصیات اور صحافیوں پر کیے جانے والے ظلم و ستم‘ کا جائزہ لینے کے لیے امریکا کی دو طرفہ کانگریس کمیٹی کا پاکستانی وقت کے مطابق بدھ کی صبح اجلاس ہونا ہے۔ اس سماعت سے کوئی بھی ایسا نتیجہ سامنے نہیں آسکتا جو موجودہ نظام کے لیے خطرہ ہو لیکن طاقت کے ہائبرڈ اسٹرکچر کے لیے یہ موزوں نہیں۔
ایسا نہیں ہے کہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار پی ٹی آئی اپنی اسٹریٹ پاور کے ذریعے نظام کو ڈھا سکتی ہے لیکن اس کے باوجود بڑھتی ہوئی سیاسی محاذ آرائی نے ایک بار پھر موجودہ سیاسی سیٹ اپ کی قانونی حیثیت کے حوالے سے سوالات کو اجاگر کیا ہے۔
اگرچہ خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کے حوالے سے سپریم کورٹ کے حالیہ متنازع فیصلے نے حکمران اتحاد کو پارلیمنٹ میں اطمینان بخش دو تہائی اکثریت دلوا دی ہے لیکن اس نے اقتدار کے ڈھانچے میں موجود شکوک کو بے نقاب کیا ہے۔ نہ صرف سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کا کنٹرول مضبوط ہوا ہے بلکہ جمہوریت کے لیے گنجائش بھی کم ہوئی ہے۔
تابعدار عدلیہ اور مطیع پریس کا تصور استحکام کی ایک جھلک تو فراہم کرتا ہے لیکن اقتدار کے موجودہ ڈھانچے کا جھوٹ انتہائی واضح ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر تازہ ترین کریک ڈاؤن آزادی اظہار کو دبانے کے اقدام کا حصہ ہے۔ یہ اس نظام کی کمزوری کی علامت بھی ہے جو کسی قسم کے اختلاف رائے کو برداشت نہیں کر سکتا۔ ایسے میں اپنے مقدمے کو بین الاقوامی فورمز تک لے جانے کو پی ٹی آئی کی مایوسی کو سمجھا جا سکتا ہے کیونکہ اسے اپنے ملک میں کوئی عدالتی اور سیاسی راستہ دستیاب نہیں۔
ملکی سیاسی لڑائی کو باہر لے جانا اور کسی دوسرے ملک سے حمایت حاصل کرنے کو شاید درست نہیں قرار دیا جاسکتا لیکن بدقسمتی سے ایسا اس وقت ہوتا ہے کہ جب دیگر تمام جمہوری راستے بند ہوجائیں۔ سابق وزیراعظم عمران خان سمیت پی ٹی آئی کے سیکڑوں رہنما اور کارکنان مبینہ طور پر من گھڑت الزامات میں قید کاٹ رہے ہیں جبکہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں معمول بن چکی ہیں۔
یہ قیاس آرائیاں عروج پر ہیں کہ حکمران اتحاد اپنی نئی دو تہائی اکثریت کے ساتھ آمرانہ طرزِ حکمرانی قائم کرنے کے لیے آئین میں مزید تبدیلیاں لانے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ یہ تمام جمہوری قوتوں کے لیے شدید تشویش کا باعث ہونا چاہیے۔
مبینہ طور پر چوری شدہ انتخابات کے نتیجے میں اقتدار میں آنے والی حکومت کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ پُرامن مظاہروں کو روکنے کے لیے ریاست کی جانب سے طاقت کا بے رحمانہ استعمال جیسا کہ گزشتہ نومبر میں اسلام آباد میں دیکھا گیا، اپوزیشن کے لیے پُرسکون جواب دینا مشکل بناتا ہے۔ پی ٹی آئی کی جانب سے ملک گیر احتجاج کی کال اور حکومت کی جانب سے اسے روکنے کے لیے طاقت کے استعمال کی دھمکی سے سیاسی صورت حال مزید بے یقینی کا شکار ہوگئی ہے۔
محاذ آرائی کی یہ سیاست ایسے ملک کے لیے انتہائی خطرناک ہے جسے متعدد بیرونی و اندرونی سیکیورٹی چیلنجز کا سامنا ہے اور اس کی معیشت اب بھی خطرے میں ہے۔ کچھ میڈیا رپورٹس کے مطابق اب خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت کو برطرف کرنے کے لیے مخصوص نشستوں کی قابل اعتراض الاٹمنٹ کے بعد ایک اور اقدام کیا جا رہا ہے جس نے صوبائی اسمبلی میں نشستوں کے نمبر گیم کو یکسر تبدیل کردیا ہے۔
اگرچہ پارٹی کو مخصوص نشستوں سے محروم کرنے کے باوجود صوبائی اسمبلی میں پی ٹی آئی کی اکثریت ناقابل تسخیر ہے، تاہم کچھ صوبائی حکمران جماعت کے اراکین کی حمایت خریدنے کے لیے ہارس ٹریڈنگ کی بات کی جارہی ہے۔ سیاسی انجینئرنگ کے ذریعے پی ٹی آئی حکومت کو ہٹانے کے لیے ایسا کوئی بھی اقدام شورش زدہ صوبے کی صورت حال کو انتہائی غیرمستحکم کر دے گا۔
کسی بھی غیر جمہوری سیاسی تبدیلی سے ایسے صوبے میں معاملات خراب ہوسکتے ہیں کہ جہاں پُرتشدد عسکریت پسندی دوبارہ سر اٹھا چکی ہے اور ان واقعات میں سیکڑوں افراد جان سے جا چکے ہیں جن میں سے زیادہ تر سیکیورٹی فورسز کے اہلکار ہیں۔
بڑھتا ہوا سیاسی عدم استحکام، صوبے میں اور سرحد پار سے سرگرم دہشت گرد گروپوں کو مزید موقع فراہم کرے گا۔ یہ طاقت کا ایک خطرناک کھیل ہے جو سلامتی کے لیے سنگین خطرہ ہے۔ صورت حال کی سنگینی کو سمجھنے اور محاذ آرائی کی سیاست ختم کرنے کے بجائے وفاقی حکومت اب صوبائی حکومت کی خواہشات کے خلاف ضم شدہ قبائلی اضلاع میں جرگہ نظام کو بحال کرنے پر غور کر رہی ہے۔ ایسا کوئی بھی غیر آئینی اقدام صوبے کو مکمل لاقانونیت کی جانب دھکیل دے گا۔
یہ صرف خیبرپختونخوا کی بات نہیں ہے۔ پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی کے تقریباً دو درجن اراکین کو اسمبلی کی کارروائی میں خلل ڈالنے کے الزام میں ہٹانے کی بھی تیاری کی جارہی ہے۔ ایوان کے تقدس کو پامال کرنے والے اراکین کی جانب سے کسی بھی قسم کی غنڈہ گردی کو برداشت نہیں کیا جا سکتا۔
افسوس کے ساتھ اپوزیشن کی جانب سے ملکی ایوانوں میں ایسے رویے تو عام ہیں پھر چاہے اقتدار میں کوئی بھی سیاسی جماعت ہو۔ یقیناً تقدس برقرار رکھنا ضروری ہے لیکن اس کے باوجود ایوان کی کارروائی میں خلل ڈالنے والے کسی نمائندے کو نشست سے ہٹانے کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ امید کرتے ہیں کہ عقل و دانش سے کام لیا جائے گا۔
جہاں سیاسی تناؤ کو ختم کرنے اور جمہوری عمل کی بحالی کی ذمہ داری بنیادی طور پر حکومت پر عائد ہوتی ہے، وہیں پی ٹی آئی کو بھی سیاسی درجہ حرارت کو کم کرنا چاہیے۔ یقینی طور پر اس کے پاس ایسی مربوط قیادت کا فقدان ہے جو پارٹی کو سمجھ بوجھ فراہم کرسکے۔
یہ درست ہوسکتا ہے کہ مشکلات کے باوجود پی ٹی آئی اب بھی عوام میں بہت مقبول ہے، لیکن اس کی کوئی واضح سمت نہیں ہے اور اس کے رہنما اسے مختلف طریقوں سے اپنی طرف بےہنگم انداز میں کھینچ رہے ہیں۔
شاید یہی وجہ ہے کہ پارٹی اپنے حامیوں کو مؤثر طریقے سے متحرک کرنے میں ناکام ہے۔ پارٹی کو سب سے زیادہ نقصان بیرون ملک سے کام کرنے والے خود ساختہ پارٹی ترجمانوں نے پہنچایا ہے جنہوں نے اپنی لاپروا سوشل میڈیا مہم کے ذریعے محاذ آرائی کی سیاست کو بھی ہوا دی۔ ان کی غیر ذمہ دارانہ بیان بازی نے ہائبرڈ حکمرانوں کو اختلاف رائے رکھنے والوں کے خلاف مزید کریک ڈاؤن کرنے کا جواز فراہم کیا۔
سوشل میڈیا مہمات کے حملے صرف حکمران اتحاد تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ وہ اپنی ہی پارٹی کے رہنماؤں اور قانون سازوں کو بھی نشانہ بناتے ہیں۔ امریکی حمایت حاصل کرنے کی ان کی امید نے پارٹی کی سیاست کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچایا ہے۔ ان میں سے کئی نے ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے مہم بھی چلائی کہ وہ عمران خان کو رہائی دلائیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔
تصادم اور جمہوری عمل کو پٹڑی سے اتارنے کی سیاست نے ملک کو ایک سنگین بحران کی جانب دھکیل دیا ہے جس سے اس کے اتحاد کو خطرہ ہے۔ ملک اپنی خودمختاری کی حفاظت اسی وقت کرسکتا ہے جب اس کے عوام اپنے جمہوری حقوق استعمال کرنے کے لیے آزاد ہوں۔ آمرانہ حکمرانی اور غیر منتخب قوتیں ملک کو درپیش سنگین چیلنجز سے مؤثر انداز میں نہیں نمٹ سکتیں۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔












لائیو ٹی وی