یورپی ممالک ایران سے جوہری مذاکرات بحال کرنے کے خواہاں
یورپی ممالک ایران کے ساتھ جوہری پروگرام پر دوبارہ مذاکرات کی کوشش کر رہے ہیں، یہ پیش رفت ایک ماہ قبل امریکی حملوں کے بعد سامنے آئی ہے، جن میں ایران کی اہم جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
ڈان اخبار میں شائع خبر رساں ایجنسیوں کی رپورٹ کے مطابق ایک جرمن سفارتی ذریعے نے بتایا ہے کہ یورپی طاقتیں ایران کے ساتھ اس کے جوہری پروگرام پر آنے والے دنوں میں دوبارہ مذاکرات کی منصوبہ بندی کر رہی ہیں، یہ مذاکرات ایک ماہ قبل امریکی حملوں کے بعد پہلی بار ہوں گے جن میں ایرانی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
ذرائع نے دعویٰ کیا کہ برطانیہ، فرانس اور جرمنی، جنہیں ’ای 3‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، ایران سے رابطے میں ہیں تاکہ آئندہ ہفتے کے دوران مزید مذاکرات کے لیے شیڈول طے کیا جا سکے۔
ایرانی خبر رساں ایجنسی ’تسنیم‘ نے ایک نامعلوم ذریعے کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ تہران نے تینوں یورپی ممالک کے ساتھ مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی ہے اور تاریخ و مقام کے تعین کے لیے مشاورت جاری ہے۔
جرمن ذریعے کے مطابق ایران کو کبھی بھی جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، یہی وجہ ہے کہ جرمنی، فرانس اور برطانیہ، ای 3 فارمیٹ کے تحت ایرانی جوہری پروگرام کے لیے ایک پائیدار اور قابل تصدیق سفارتی حل کی تلاش میں ہیں۔
اسرائیل اور مغربی ممالک طویل عرصے سے ایران پر الزام عائد کرتے آرہے ہیں کہ وہ جوہری ہتھیار بنانے کی کوشش کر رہا ہے، تاہم تہران مسلسل ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔
حملوں نے مذاکرات کو متاثر کیا
13 جون کو اسرائیل نے ایران پر اچانک حملوں کی ایک لہر شروع کی، جن میں اس کے اہم عسکری اور جوہری مراکز کو نشانہ بنایا گیا، نو روز بعد امریکا نے بھی ایرانی جوہری پروگرام کے خلاف حملے کیے جن میں قُم کے صوبے میں واقع فردو کی یورینیم افزودگی تنصیب، اصفہان اور نطنز کے جوہری مقامات شامل تھے۔
اس سے قبل عمانی ثالثوں کے ذریعے ایران اور امریکا کے درمیان کئی جوہری مذاکرات ہو چکے تھے، تاہم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ مل کر ایرانی تنصیبات پر حملے کے فیصلے نے ان مذاکرات کو مؤثر طور پر ختم کر دیا۔
ای 3 ممالک نے ایرانی نمائندوں سے آخری بار 21 جون کو جنیوا میں ملاقات کی، جو امریکی حملوں سے صرف ایک دن پہلے ہوئی تھی۔
کریملن میں ملاقات
اتوار کے روز روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے ایرانی سپریم لیڈر کے جوہری امور پر اعلیٰ مشیر علی لاریجانی سے کریملن میں اچانک ملاقات کی۔
کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف کے مطابق علی لاریجانی نے مشرقِ وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی کشیدگی اور ایرانی جوہری پروگرام سے متعلق صورتِ حال پر روسی صدر کو آگاہ کیا۔
پیوٹن نے اس موقع پر خطے میں استحکام کے لیے روس کے معروف مؤقف اور ایرانی جوہری مسئلے کے سیاسی حل کی اہمیت پر زور دیا۔
ماسکو کے ایران کے مذہبی رہنماؤں کے ساتھ دوستانہ تعلقات ہیں اور وہ تہران کو اہم حمایت فراہم کرتا ہے، تاہم جب امریکا اسرائیل کے حملوں میں شامل ہوا تو روس نے ایران کی کھل کر حمایت نہیں کی۔
اسنیپ بیک میکانزم
2015 میں ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان ایک جوہری معاہدہ ہوا تھا جسے جوائنٹ کمپریہینسو پلان آف ایکشن (جے سی پی او اے) کہا جاتا ہے۔
اس معاہدے کے تحت ایران کے جوہری پروگرام پر سخت پابندیاں عائد کی گئیں اور بدلے میں اقتصادی پابندیاں ختم کی گئیں، تاہم امریکی صدر ٹرمپ نے اپنے پہلے دورِ صدارت میں اس معاہدے سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔
یورپی ممالک نے حالیہ دنوں میں ایران کے عدم تعاون کی صورت میں ’اسنیپ بیک‘ میکانزم کو فعال کرنے کی دھمکی دی ہے، جس کے ذریعے دوبارہ پابندیاں نافذ کی جا سکتی ہیں۔
ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے یورپی وزرائے خارجہ سے گفتگو کے بعد ایک بیان میں کہا کہ مغربی اتحادیوں کے پاس دوبارہ پابندیاں نافذ کرنے کا نہ کوئی قانونی اور نہ ہی اخلاقی جواز ہے۔
انہوں نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر لکھا کہ اگر یورپی یونین یا ای 3 کردار ادا کرنا چاہتے ہیں تو انہیں دھمکیوں اور دباؤ کی پرانی پالیسیوں کو ترک کرنا ہوگا، بشمول اسنیپ بیک میکانزم، جس کے لیے ان کے پاس کوئی اخلاقی یا قانونی جواز نہیں۔
تاہم جرمن ذرائع نے کہا کہ اگر موسم گرما تک کوئی حل نہ نکلا تو ای 3 کے لیے اسنیپ بیک اب بھی ایک ممکنہ آپشن ہے۔
گزشتہ ہفتے ایران نے واضح کر دیا تھا کہ وہ امریکا کے ساتھ جوہری مذاکرات میں شرکت نہیں کرے گا اگر ان مذاکرات کی شرط یورینیم کی افزودگی ترک کرنا ہوگی۔












لائیو ٹی وی