• KHI: Partly Cloudy 16°C
  • LHR: Partly Cloudy 10.1°C
  • ISB: Partly Cloudy 11.9°C
  • KHI: Partly Cloudy 16°C
  • LHR: Partly Cloudy 10.1°C
  • ISB: Partly Cloudy 11.9°C

ڈونلڈ ٹرمپ کا امریکا کے یونیسکو سے انخلا کا فیصلہ

شائع July 22, 2025
فائل فوٹو: رائٹرز
فائل فوٹو: رائٹرز

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا کے اقوام متحدہ کی ثقافتی اور تعلیمی تنظیم یونیسکو سے انخلا کا فیصلہ کرلیا، یہ فیصلہ ٹرمپ کےپہلے دور صدارت میں کیا گیا تھا جسے جو بائیڈن کے دور میں واپس لے لیا گیا تھا۔

عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق پیرس میں قائم یہ ادارہ دوسری عالمی جنگ کے بعد تعلیم، سائنس اور ثقافت میں بین الاقوامی تعاون کے ذریعے امن کو فروغ دینے کے لیے قائم کیا گیا تھا، امریکا کا اس سے انخلا 31 دسمبر 2026 سے مؤثر ہوگا۔

اس حوالے سے وائٹ ہاؤس کی ترجمان اینا کیلی نے کہا کہ’ صدر ٹرمپ نے یونیسکو سے امریکا کو الگ کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جو متنازعہ ثقافتی و سماجی ایجنڈے کو سپورٹ کرتا ہے جو اُن عام فہم پالیسیوں سے بالکل مختلف ہیں جن کے لیے امریکیوں نے نومبر میں ووٹ دیا۔’

امریکی محکمہ خارجہ نے کہا کہ یونیسکو میں شامل رہنا قومی مفاد میں نہیں ہے کیونکہ یہ ’ بین الاقوامی ترقی کے لیے ایک عالمی، نظریاتی ایجنڈا رکھتا ہے جو ہماری ’ امریکا فرسٹ ’ خارجہ پالیسی سے مطابقت نہیں رکھتا۔’

یونیسکو کی سربراہ آڈری آزولے نے کہا کہ انہیں ٹرمپ کے فیصلے پر گہرا افسوس ہے، لیکن یہ ’ متوقع تھا اور یونیسکو نے اس کے لیے تیاری کر رکھی تھی۔’

انہوں نے کہا کہ ادارے نے اپنے مالی وسائل کو متنوع بنایا ہے اور اب اسے اپنے بجٹ کا صرف تقریباً 8 فیصد واشنگٹن سے ملتا ہے۔

یونیسکو اُن کئی بین الاقوامی اداروں میں شامل ہے جن سے ٹرمپ نے اپنے پہلے دور میں امریکا کو الگ کیا تھا، جن میں عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او)، پیرس معاہدہ برائے ماحولیاتی تبدیلی، اور اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل شامل ہیں، اپنے دوسرے دورِ حکومت میں وہ ان فیصلوں کو بڑی حد تک دوبارہ نافذ کر چکے ہیں۔

یونیسکو کے حکام نے کہا کہ امریکا کے انخلا سے اُن پروگراموں پر کچھ محدود اثر پڑے گا جن کی مالی معاونت امریکا کر رہا تھا۔

اسرائیل نے یونیسکو سے امریکا کے انخلا کے فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ نے کہا کہ انخلا کی ایک وجہ یونیسکو کا فلسطین کو رکن ریاست تسلیم کرنا تھا، جو ’ امریکی پالیسی کے خلاف تھا اور ادارے میں اسرائیل مخالف بیانیے کے پھیلاؤ کا باعث بنا۔’

یونیسکو کے حکام نے کہا کہ گزشتہ آٹھ برسوں میں ادارے کے تمام متعلقہ بیانات اسرائیل اور فلسطینیوں، دونوں کی منظوری سے جاری ہوئے ہیں۔

آڈری آزولےنے کہا کہ’ امریکا کی طرف سے دیے گئے انخلا کی وجوہات وہی ہیں جو سات سال پہلے تھیں، حالانکہ اب صورتحال میں بنیادی تبدیلی آ چکی ہے، سیاسی تناؤ کم ہوا ہے اور یونیسکو آج ایک منفرد فورم ہے جو عملی اور ٹھوس کثیر الجہتی تعاون کے لیے اتفاق رائے فراہم کرتا ہے۔’

انہوں نے مزید کہا کہ یہ دعوے یونیسکو کی کوششوں کی حقیقت کے منافی ہیں، خاص طور پر ہولوکاسٹ کی تعلیم اور یہود دشمنی کے خلاف جدوجہد کے حوالے سے۔

سفارت کاروں نے کہا کہ یونیسکو میں محسوس کیا جا رہا تھا کہ سیاسی وجوہات کی بنا پر انخلا ناگزیر ہے کیونکہ بائیڈن نے امریکا کو دوبارہ شامل کیا تھا اور پہلے انخلا کے باعث بقایا جات ادا کرنے کا وعدہ بھی کیا تھا۔

یونیسکو، جس کا مکمل نام اقوام متحدہ کی تنظیم برائے تعلیم، سائنس و ثقافت ہے، دنیا بھر میں عالمی ورثہ کے مقامات کے تعین کے لیے مشہور ہے، جیسے امریکا کا گرینڈ کینین اور شام کا قدیم شہر پالمیرا۔

امریکا نے یونیسکو میں پہلی بار 1945 میں اس کے قیام کے وقت شمولیت اختیار کی تھی لیکن 1984 میں مالی بدانتظامی اور امریکہ مخالف تعصب کے الزامات پر اس سے الگ ہو گیا تھا۔

بعد میں 2003 میں صدر جارج ڈبلیو بش کے دور میں امریکا دوبارہ اس تنظیم میں شامل ہوا تھا، جب انہوں نے کہا تھا کہ ادارے نے ضروری اصلاحات کر لی ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 14 دسمبر 2025
کارٹون : 13 دسمبر 2025