ٹوٹ بٹوٹ کی کھیر اور ریحام خان کی جماعت

شائع July 25, 2025

ٹوٹ بٹوٹ نے کھیر پکائی تھی تو کس کس کو کیا کیا جتن کرنے پڑے تھے۔ خالہ جان لکڑی لائیں، پھپھو نے دیا سلائی کا انتظام کیا، والدہ محترمہ نے آگ جلائی، برادرانِ ٹوٹ بٹوٹ چاول اور شکر لائے، بہنوں نے دودھ ملائی کا بندوبست کیا، ابا اورخالو نے مالی معاونت کی تب جاکر کھیر پکی جسے آپ خاندانی منصوبہ بندی سے پکائی جانے والی کھیر کہہ سکتے ہیں۔

دوسری طرف اللّہ کے ایسے بندے بندیاں بھی ہیں جو اکیلے ہی پوری سیاسی جماعت بنا لیتے ہیں جیسے محترمہ ریحام خان جنہوں نے حال ہی میں ’پاکستان ری پبلکن پارٹی‘ کے نام سے سیاسی جماعت قائم کر ڈالی ہے۔ ویسے ٹوٹ بٹوٹ اور ریحام خان میں کوئی مناسبت نہیں۔ ایک بچوں کے لیے لکھی گئی نظم کا کردار اور دوسری صرف بالغان کے لیے لکھی گئی نثری کتاب کی مصنفہ، البتہ کھیر اور سیاسی جماعت میں اتنی مماثلت ضرور ہے کہ دونوں کے لیے چمچے ناگزیر ہوتے ہیں۔

سیاست چونکہ ٹیڑھی کھیر ہے، اس لیے چمچے بھی ٹیڑھے درکار ہوتے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ کھیر ہے، گھی نہیں کہ سیدھی یا تیڑھی انگلی سے نکال لیا۔ پاکستان کی سیاست میں تو انگلیاں بس اٹھتی ہیں جن میں ایمپائر کی وہ انگلی بھی شامل ہے جس کا ذکر کبھی عمران خان بہت کیا کرتے تھے۔ عمران خان سے یاد آیا ہم ریحام خان کی بات کر رہے تھے جو کہیں سے کہیں نکل گئی۔

ٹوٹ بٹوٹ کی کھیر اور ریحام خان کی جماعت میں ایک چیز مماثل ہے
ٹوٹ بٹوٹ کی کھیر اور ریحام خان کی جماعت میں ایک چیز مماثل ہے

خبر کے مطابق انہوں نے اپنی جماعت کے عہدے داروں اور منشور کے متعلق کوئی وضاحت نہیں کی۔ جہاں تک عہدے داروں کا تعلق ہے تو ممکن ہے پاکستان ری پبلکن پارٹی کی بانی کا اپنے تجربات کی روشنی میں عہد و پیمان کی طرح عہدے داروں کے بارے میں بھی یہی خیال ہو کہ ٹوٹ جاتے اور کسی اور کی جھولی میں جا گرتے ہیں۔

یوں بھی سیاسی جماعت چلانے کے لیے عہدے داروں سے کہیں زیادہ فرماں برداروں، سرمایہ داروں، جاگیرداروں، جلسہ گاہیں بھرتے ناداروں اور کبھی کبھی تھانے داروں کی ضرورت ہوتی ہے اور اگر ’پہرے دار‘ سرپرست اور ساجھے دار بن جائیں تو اقتدار کے مدار میں سفر شروع ہوجاتا ہے۔ پھر تابعداری اور نازبرداری کی جاتی رہے تو دورانِ سفر ہزارہا شجرسایہ دار مسافر نواز بنے رہیں گے، بصورت دیگر اس راہ کا مسافر ’نواز‘ بن کر رہ جائے گا اور اقتدار اس کے لیے شجرممنوعہ بن جائے گا۔

ایک امکان یہ بھی ہے کہ جس طرح بعض لوگ اپنی ذات میں انجمن ہوتے ہیں، محترمہ انجمن میں بس اپنی ذات کا ہونا کافی سمجھتی ہوں۔ رہا منشور تو ان کی 2018ء کے انتخابات سے عین پہلے آنے والی کتاب ’بیانات کے رُخ‘ اور ’تبدیلی‘ کے بڑے جانے پہچانے لفظ کو عنوان بنا کر کیے جانے والے ٹی وی شو سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کی جماعت کے منشور کے نکات کا محور اور ’مرکزی خیال‘ کیا ہوگا۔ ہمیں لگتا ہے کہ ممکنہ نکات کچھ یوں ہوں گے،

معیشت

وسیع عریض مکانوں، وہ جو اسلام آباد میں اور اسلام آباد کے بھی پہاڑوں پر بنے ہیں، بالخصوص جو بنی گالہ میں تعمیر کیے گئے ہیں، پر ایک لاکھ روپے فی انچ کے حساب سے محصول عائد کیا جائے گا۔

تاہم ریٹائرڈ سرکاری ملازمین، تاجر، صنعت کار، شعبہ زراعت سے وابستہ افراد، اس محصول سے مستثنٰی ہوں گے۔ ہماری حکومت کی کوشش ہوگی کہ زیادہ لوگوں پر بوجھ ڈالنے کے بجائے کسی ایک رہائش گاہ کے مالک ہی سے سارا محصول وصول کرلیا جائے۔ اس وصولی کو امتیازی سلوک یا انتقامی کارروائی قرار دینے والوں سے صاف کہہ دیا جائے گا، ’جو کہتا ہے وہ خود ہی ہوتا ہے‘۔

ریحام خان کی جماعت کا منشور کافی دلچسپ ہوگا—تصویر: میٹا اے آئی
ریحام خان کی جماعت کا منشور کافی دلچسپ ہوگا—تصویر: میٹا اے آئی

ملک کے معاشی حالات سدھارنے کے لیے قیدیوں کو بھی محصول کے جال میں لپیٹا بلکہ جکڑا جائے گا۔ وہ اس طرح کہ ان سے جیل میں انہیں میسر ہر سہولت، منصفین اور سرکاری وکلا کے ان کے مقدمات پر صرف ہونے والے وقت، مقدموں میں کام آنے والی دستاویزات میں استعمال شدہ کاغذات کی قیمت یہاں تک کہ جیل کے بیت الخلا میں ’بڑی‘ اور ’چھوٹی‘ حاجات پوری کرنے کا کرایہ بھی وصول کیا جائے گا۔ تاہم یہ ادائی صرف اُن قیدیوں پر واجب ہوگی جن پر سو (100) یا اس سے زیادہ مقدمات درج ہوں اور جو ہمارے اقتدار میں آنے کے وقت تک کم از کم دو سال جیل میں گزار چکے ہوں۔

جبکہ کُتے پالنے والوں پر کُتا ٹیکس لگایا جائے گا۔

خارجہ پالیسی

سعودی عرب سے تعلقات مزید بہتر بنائے جائیں گے۔ سعودی حکومت کو باور کروایا جائے گا کہ اس نے ہر مشکل گھڑی میں ہماری مدد کی ہے۔ جواباً اس کے لیے ہر گھڑی تیار کامران ہیں ہم۔ ہمارا وزیرخارجہ ہر کچھ عرصے بعد ریاض جا کر گانا گایا کرے گا، ’زندگی کی نہ ٹوٹے لڑی پیار کرلیں گھڑی دو گھڑی‘۔ یوں سعودی حکم رانوں کو ’گھڑی‘ یاد دلائی جاتی رہے گی۔

ریاض جا کر بار بار گھڑی کی یاد دلائی جائے گی—تصویر: میٹا اے آئی
ریاض جا کر بار بار گھڑی کی یاد دلائی جائے گی—تصویر: میٹا اے آئی

ہماری حکومت بیرونی مداخلت بالکل، قطعی، تھوڑی سی، مُنی سی بھی برداشت نہیں کرے گی جہاں کسی ملک نے ہمارے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کی ہم جھٹ سے اسے سائفر لہرانے، امریکا سے آزادی کی تقریروں، نعروں اور ’ہم کوئی غلام ہیں‘ کے حریت پسندانہ افکار کا مظاہرہ کرتے مناظر پر مبنی ویڈیوز، اس ملک کو بھیج کر بتادیں گے کہ پاکستانی بیرونی مداخلت بالکل پسند نہیں کرتے۔ باقی وہ خود سمجھ جائے گا۔

ہم دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیں گے کہ کچھ معاملات میں کسی کا ٹانگ اڑانا ہمیں بالکل منظور نہیں مثلاً اڈیالا، ڈالا، دھو ڈالا اور عوام نے کسے ووٹ ڈالا۔

تعلیم

جامعات کا مالی بوجھ گھٹانے کے لیے بعض مضامین کی تدریس کا مکمل خاتمہ کردیا جائے گا، مثال کے طور پر عمرانیات جو دراصل ہے تو ’ع‘ پر پیش کے ساتھ (عُمرانیات) لیکن غلطی سے اسے زیر کے ساتھ عِمرانیات کہا جانے لگا ہے جس سے حکومت کو مشکل پیش آنے اور حکمران جماعت کے زیر ہوجانے کا خطرہ ہوسکتا ہے۔

اخلاقیات کو نصاب کا لازمی حصہ بنایا جائے گا اور اس مضمون کی تعلیم کے لیے ہماری جماعت کی وزیراعظم کی یادداشتوں پر مبنی تصنیف واحد نصابی کتاب ہوگی۔ طلبا کو اس نئے اضافے سے گھبرانے کی ضرورت نہیں کیونکہ اخلاقیات کی پوری تعلیم زیادہ سے زیادہ ایک ہفتے میں مکمل ہو جایا کرے گی۔ دراصل مذکورہ کتاب سے مہذب اخلاق مواد نکالنے کے بعد چار پانچ سو الفاظ ہی باقی بچیں گے۔

عُمرانیات کو نصاب سے بالکل ختم کردیا جائے گا
عُمرانیات کو نصاب سے بالکل ختم کردیا جائے گا

امکانی منشور کے ان نکات سے آپ اس کے باقی شعبہ جات کے لیے مندرجات کا باخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں۔

ویسے تو سیاست میں دروازے کُھلے رہتے ہیں لیکن ریحام خان کی جماعت کے کواڑ ہر ایک کے لیے نہیں کھلیں گے۔ انہوں نے بتادیا ہے کہ کون کون لوگ ان کی جماعت میں شمولیت سے محروم رہیں گے۔ ایسے سیاستدان جو عوامی ووٹ لے کر اپنے حلقوں سے غائب رہتے ہیں، سوشل میڈیا اسٹار، بڑی معروف شخصیات، ٹک ٹاکرز اور کھوکھلے نعرے لگانے والے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ ان کی جماعت میں صرف سنجیدہ افراد شامل ہوں گے۔

شمولیت پر اتنی پابندیاں کسی سیاسی جماعت تو کیا تبلیغی جماعت نے بھی عائد نہیں کیں۔ یہ ارادے ظاہر کرتے ہیں کہ ریحام بی بی نے سیاسی جماعت لوگوں کی شمولیت نہیں، اپنی مشغولیت کے لیے بنائی ہے اور یہ سوچ کر انسداد شمولیت کی حکمت پر عمل پیرا ہیں کہ جماعت میں دوسرے لوگ آگئے تو میں کیا کروں گی!

دوسری طرف انہوں نے صرف سنجیدہ افراد کو اپنی جماعت میں شامل ہونے کی اجازت مرحمت فرما کر ہم جیسے غیرسنجیدہ لوگوں کا دل توڑ دیا۔ چلیے ہم پر تو ان کی جماعت کے داخلے بند ہوگئے لیکن ہم اتنے کُھلے دل کے ہیں کہ نومولود پاکستان ری پبلکن پارٹی میں شامل کرنے کے لیے کچھ نام پیش کیے بغیر نہیں رہیں گے۔

پہلا نام ہے ہماری پڑوسن خالہ سنجیدہ کا، جو منہ میں ہر وقت پان رکھنے کی وجہ سے کبھی کہیں ہنستی ہوئی نہیں پائی گئیں۔ دوسرے ہیں ہمارے دوست بَنّے بھائی، انہیں لطیفہ سناؤ تو ہونقوں کی طرح منہ کھول کر بڑے غور سے سنتے ہیں پھر پوچھتے ہیں، ’اس کہانی سے ہمیں کیا سبق ملتا ہے؟‘

ہماری پھپھو کے بیٹے بَبّن میاں بھی نہایت سنجیدہ ہیں۔ ایک مرتبہ انہیں ہنستا دیکھنے کے لیے شرط لگاکر احباب نے گدگدی کی تو بلغم سمیت ان میں پھنسی ہر چیز باہر نکل آئی سوائے ہنسی کے۔ فی الحال ریحام صاحبہ ان تین سنجیدہ افراد سے کام چلائیں، ہم اور بھی ڈھونڈ کر پیش کرتے ہیں۔

عثمان جامعی

عثمان جامعی شاعر، قلم کار، مزاح نگار، بلاگر، صحافی ہیں۔ آپ کی تین کتابیں شائع ہوچکی ہیں، جن میں فکاہیہ مضامین کا مجموعہ ’کہے بغیر‘، شعری مجموعہ ’میں بس ایک دیوار‘ اور کراچی کے حوالے سے ناول ’سرسید، سینتالیس، سیکٹرانچارج‘ شامل ہیں۔ آپ اس وقت ایک اخبار میں بطور ’سنڈے میگزین‘ انچارج ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 5 دسمبر 2025
کارٹون : 4 دسمبر 2025