ایران بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کی ٹیم کو دورے کی اجازت دینے پر رضامند
ایران نے اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے (آئی اے ای اے ) کی ایک تکنیکی ٹیم کو آئندہ چند ہفتوں میں دورے کی اجازت دینے پر رضامندی ظاہر کی ہے جس کا مقصد انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی اور تہران کے درمیان تعلقات پر بات چیت کی جا سکے۔
العریبیہ کی رپورٹ کے مطابق یہ بات ایران کے نائب وزیر خارجہ کاظم غریب آبادی نے بدھ کے روز نیویارک میں اقوام متحدہ کے اجلاسوں کے موقع پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔
انہوں نے کہا کہ’ یہ وفد جوہری تنصیبات کا معائنہ کرنے کے لیے نہیں بلکہ طریقہ کار پر بات چیت کرنے کے لیے ایران آئے گا۔ ’
بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی نے ایرانی نائب وزیر خارجہ کے بیان پر کوئی خاص تبصرہ نہیں کیا، تاہم کہا کہ آئی اے ای اے کے سربراہ رافیل گروسی ’ ایران کے جوہری مسئلے میں شامل تمام فریقین سے فعال رابطے میں ہیں۔’
بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کا کہنا ہے کہ اسرائیل اور امریکا کی جانب سے گزشتہ ماہ ایران کے جوہری پروگرام کو تباہ کرنے کے لیے کیے گئے فضائی حملوں کے بعد ایران میں دوبارہ معائنہ شروع کرنا انتہائی ضروری ہے تاکہ تہران کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکا جا سکے۔
تہران جوہری ہتھیار بنانے کے ارادے کی تردید کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام صرف سول مقاصد کے لیے ہے۔
کاظم غریب آبادی نے کہا کہ’ ہماری اٹامک انرجی آرگنائزیشن دراصل جوہری تنصیبات کو پہنچنے والے نقصانات کا جائزہ لے رہی ہے اور ہم اس کی رپورٹ کا انتظار کر رہے ہیں، اس حوالے سے یہ بہت خطرناک کام ہے، ہمیں معلوم نہیں کہ وہاں کیا ہوا ہے۔’
سفارتکاروں نے خاص طور پر تقریباً 400 کلوگرام انتہائی افزودہ یورینیم کے ذخائر کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا ہے، جس پر ایران نے آئی اے ای اے کو کوئی تازہ اپ ڈیٹ فراہم نہیں کی۔
ایرانی نائب وزیر خارجہ نے کہا کہ آئی اے ای اے نے باضابطہ طور پر ان ذخائر کے بارے میں کوئی سوال نہیں کیا ہے اور تہران ’ فی الحال کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ ہمارے پاس (ملکی) اٹامک انرجی آرگنائزیشن کی طرف سے کوئی مستند اور قابل اعتماد رپورٹ نہیں ہے۔’
ایران کے مستقبل کے جوہری پروگرام پر کسی بھی مذاکرات کے لیے آئی اے ای اے کے ساتھ تعاون ضروری ہوگا، جون میں آئی اے ای اے نے اسرائیلی حملوں سے عین قبل اعلان کیا تھا کہ تہران عدم پھیلاؤ کے معاہدے کی خلاف ورزی کر رہا ہے، جس پر ایران ناراض ہے۔
کاظم غریب آبادی کا کہنا تھا کہ وہ جمعہ کو برطانیہ، فرانس اور جرمنی ( کےنمائندوں) بکے ساتھ استنبول میں ملاقات کریں گے، یہ ممالک چین اور روس کے ساتھ 2015 کے جوہری معاہدے کے باقی فریقین ہیں، جس سے امریکا 2018 میں علیحدہ ہو گیا تھا، اس معاہدے کے تحت ایران پر پابندیاں نرم کی گئی تھیں اور اس کے جوہری پروگرام پر پابندیاں عائد کی گئی تھیں۔
علاوہ ازیں، تہران اور واشنگٹن نے اس سال عمان کی ثالثی میں جوہری مذاکرات کے پانچ دور مکمل کیے ہیں، کاظم غریب آبادی کے مطابق ان مذاکرات کا محور ایران کی جوہری سرگرمیوں سے متعلق شفافیت کے اقدامات اور امریکی پابندیوں کے خاتمے پر بات چیت ہے۔













لائیو ٹی وی