استنبول میں ایران اور یورپ کے درمیان ایٹمی پروگرام پر مذاکرات کا آغاز
ایران نے اقوام متحدہ کی اس قرارداد میں توسیع کی تجاویز کو آج مسترد کر دیا جو 2015 کے جوہری معاہدے کی توثیق کرتی ہے، یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب گزشتہ ماہ اسرائیل اور امریکا کی جانب سے بمباری کے بعد ایران نے مغربی طاقتوں کے ساتھ پہلی بار براہ راست بات چیت کا آغاز کیا۔
عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق ایران، یورپی یونین، فرانس، برطانیہ اور جرمنی کے نام نہاد ای تھری گروپ کے وفود استنبول میں ایرانی قونصل خانے پہنچے، جہاں مذاکرات کا آغاز ہوا، اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے کا کہنا ہے کہ یہ بات چیت معائنوں کو دوبارہ شروع کرنے کا موقع فراہم کر سکتی ہے۔
یورپی ممالک، چین اور روس کے ساتھ، 2015 کے معاہدے کے باقی فریقین ہیں، جس سے امریکا 2018 میں دستبردار ہو گیا تھا، اس معاہدے کے تحت ایران پر عائد پابندیاں اس کے جوہری پروگرام پر پابندیوں کے بدلے اٹھا لی گئی تھیں۔
اس معاہدے کو کنٹرول کرنے والی قرارداد کی میعاد 18 اکتوبر کو ختم ہو رہی ہے، اس وقت اقوام متحدہ کی تمام پابندیاں ایران پر سے اٹھا لی جائیں گی، جب تک کہ 30 دن پہلے ’ اسنیپ بیک’ میکانزم کو فعال نہ کیا جائے۔
18 اکتوبر سے 30 دن قبل اگر یہ میکانزم فعال کردیا گیا تو ایران پر یہ پابندیاں خود بخود دوبارہ نافذ ہوجائیں گی،جن میں ہائیڈرو کاربن سے لے کر بینکنگ اور دفاعی شعبوں کو ہدف بنایا گیا ہے۔
اس عمل کے لیے وقت دینے کی غرض سے، ای تھری نے اگست کے آخر تک سفارت کاری کا دوبارہ آغاز کرنے کی آخری تاریخ مقرر کی ہے، سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ ایران ٹھوس اقدامات کرے تاکہ انہیں چھ ماہ تک کی توسیع پر راضی کیا جا سکے۔
ایران کو اہم مسائل پر وعدے کرنے کی ضرورت ہوگی جن میں واشنگٹن کے ساتھ ممکنہ بات چیت، اقوام متحدہ کی بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے ) کے ساتھ مکمل تعاون، اور 400 کلوگرام (880 پاؤنڈ) تقریباً ہتھیاروں کے درجے کے انتہائی افزودہ یورینیم کا حساب دینا شامل ہے، جس کا گزشتہ ماہ کے حملوں کے بعد سے ٹھکانہ نامعلوم ہے۔
مذاکرات کے آغاز سے چند منٹ قبل، ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان اسمٰعیل بقائی نے سرکاری خبر رساں ایجنسی ارنا کو بتایا کہ ایران اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 2231 میں توسیع کی بات کو ’ بے معنی اور بے بنیاد’ سمجھتا ہے۔
آئی اے ای اے کے سربراہ رافیل گروسی نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ جوہری معائنے کے دورے اس سال دوبارہ شروع ہو سکتے ہیں اور اب تکنیکی تفصیلات پر بات کرنا اہم ہے۔
انہوں نے سنگاپور میں رپورٹرز کو بتایا کہ’ ہمیں یہ طے کرنا ہوگا کہ کہاں جانا ہے، کیسے کرنا ہے، ہمیں ایران کی بات سننی ہوگی کہ وہ کیا احتیاطی تدابیر اختیار کرنا چاہتا ہے۔’
امریکا نے ایران پر گزشتہ جون میں فضائی حملوں سے قبل اس کے ساتھ مذاکرات کےپانچ دور کیے تھے، ان حملوں کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ اس نے ایک ایسے پروگرام کو ’ تباہ’ کر دیا تھا جسے واشنگٹن اور اس کا اتحادی اسرائیل جوہری بم حاصل کرنے کا ہدف قرار دیتے ہیں۔
تاہم، این بی سی نیوز نے موجودہ اور سابق امریکی حکام کے حوالے سے بتایا کہ بعد میں امریکی جائزے میں معلوم ہوا کہ حملوں میں تین میں سے ایک ہدف شدہ جوہری سائٹ تباہ ہوئی تھی لیکن دیگر دو کو اتنا زیادہ نقصان نہیں پہنچا تھا۔
ایران جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی تردید کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام صرف سویلین مقاصد کے لیے ہے۔
یورپی اور ایرانی سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ فی الحال ایران کا امریکا کے ساتھ مذاکرات کی میز پر دوبارہ بیٹھنےکا کوئی امکان نہیں ہے۔












لائیو ٹی وی