اسلامی قوم پرستی حقیقت یا فریب؟
مختلف بھارتی تجزیہ کار پاکستان کے فوجی سربراہ جنرل عاصم منیر کو ’اسلامسٹ قوم پرست (Islamist nationalist) ’ قرار دیتے ہیں۔
یہاں دو چیزیں کارفرما ہیں۔ سب سے پہلے وہ جنرل عاصم منیر کو ایٹمی ہتھیار رکھنے والے ایک خوفناک اسلام پسند کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں۔ یہ تصویر بڑی حد تک مغربی طاقتوں کی توجہ مبذول کروانے کے لیے بنائی گئی ہے۔
دوسرا یہ کہ اس بات کا بھی امکان ہے کہ یہ تجزیہ کار واضح طور پر اس بات سے واقف نہیں ہیں کہ ’اسلامسٹ قوم پرستی‘ نام کی کوئی شے ہے ہی نہیں۔ دونوں طرح سے ان کی وضاحتیں قابلِ فہم نہیں۔
اسلام تو قوم پرستی کے پورے تصور کے خلاف ہے۔ حسن البنا، سید قطب اور ابوالاعلیٰ مودودی جیسے معروف اسلامی مفکرین کا خیال تھا کہ قوم پرستی ایک یورپی نظریہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ نظریہ سیکولر ہے اور جغرافیہ پر مبنی ہے جو اسلام کے عالمی یا ’عالمگیریت‘ کے پیغام سے مطابقت نہیں رکھتا۔
قوم پرستی درحقیقت ایک یورپی تصور ہے۔ مثال کے طور پر مولانا مودودی کا حکمت الٰہی (خدا کی حکمرانی) کا نظریہ قومی ریاست کی تعمیر یا قوم پرستی کے بارے میں نہیں تھا۔ یہ ایک ایسی اسلامی ریاست کے بارے میں تھا جس پر ’متقی مردوں‘ کے ہراول دستے کی حکومت تھی جو اس ریاست کو مزید پھیلانا چاہتے تھے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ریاست کا تصور جسے آج ہم تسلیم کرتے ہیں اور جیسا کہ اسلام پسندی کے علمبرداروں نے لاگو کیا ہے، وہ ایک یورپی تصور ہے۔
مرکزی دھارے اور عسکریت پسند دونوں طرح کے اسلام پسند، قوم پرستی کو سخت ناپسند کرتے ہیں۔ لیکن مرکزی دھارے کے اسلام پسند اکثر پارلیمانوں میں نشستیں حاصل کرنے کے لیے سیاست میں داخل ہوتے ہیں جہاں سے وہ تشدد کا سہارا لیے بغیر اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن ان کے لیے، یہ محض ایک عارضی منصوبہ ہے جس پر اس وقت تک عمل کرنا ہے کہ جب تک کہ معاشرہ اور سیاست زیادہ اسلامی نہ ہو جائے یا وہ وسیع تر اسلامی مقاصد کے لیے کام نہ کرے۔
لیکن اس طرح کی زیادہ تر کوششیں مختلف مسلم اکثریتی ممالک میں ناکام رہی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آخر میں قوم پرستی جوکہ عام طور پر سیکولر ہوتی ہے، اسلام پسند نظریے سے ٹکرا جاتی ہے۔ ان کے اہداف اس بات سے مطابقت نہیں رکھتے کہ کس طرح جدید قومی ریاستیں قائم کی جاتی ہیں۔
ریاست پاکستان خود کو ایک ’اسلامی جمہوریہ‘ کے طور پر بیان کرتا ہے لیکن اس کی بنیاد ’مسلم قوم پرستی‘ پر رکھی گئی تھی۔ مسلم قوم پرستی ایک قوم کے تصور کو استعمال کرتے ہوئے مسلمانوں کے حقوق اور اہداف کے تحفظ پر مرکوز ہے۔ یہ اسلام کو رہنمائی اور اقدار کے ایک ذریعے کے طور پر دیکھتا ہے، حکومت چلانے کے لیے ایک منصوبے کے طور پر نہیں۔
تاہم 1970ء کی دہائی میں پاکستانی قوم پرستی کا بنیادی حصہ مسلم قوم پرستی سے ’اسلامی قوم پرستی‘ کی طرف بڑھنا شروع ہوا۔ اسلامی قوم پرستی میں اب بھی مسلم قوم پرستی کے حصے شامل ہیں لیکن یہ اسلام کے کچھ مذہبی (تھیوکریٹک) نظریات کو سیاست اور قومی شناخت میں شامل کرنے کی اجازت بھی دیتا ہے۔
پاکستان میں اسلامی قوم پرستی کا براہِ راست نتیجہ ’اسلامی جمہوریہ‘ نکلا۔ اس نے ایک جمہوری حکومت، عوام کے متفقہ آئین اور ایک قانونی نظام کی حمایت کی جس میں سیکولر اور اسلامی قوانین دونوں کا امتزاج ہو۔
ایک اسلامی جمہوریہ، اسلام کو بنیادی طور پر ملک کی شناخت کے طور پر دیکھتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ آئین غیر مسلم آبادی کو مذہبی آزادی کی ضمانت دیتا ہے۔ یہ مکمل طور پر سیکولر سرگرمیوں کی بھی اجازت دیتا ہے جب تک کہ وہ آئین میں اسلام کی تعریف کے خلاف نہیں جاتے۔
مسلم قوم پرستی سے اسلامی قوم پرستی یا اسلامی جمہوریہ کی طرف تبدیلی ہموار نہیں رہی۔ بہت جلد سیاسی رہنماؤں اور ریاستی اداروں نے اسلامی قوم پرستی کا استعمال شروع کر دیا تاکہ وہ ایسا محسوس کر سکیں کہ جو وہ کررہے ہیں وہ مذہب کی طرف سے منظور شدہ ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ، آئین میں قانون اور اخلاقیات کے بارے میں مزید اسلامی نظریات شامل کرنے کی ان کی خواہشات بھی بڑھتی گئیں۔
نتیجتاً اسلامی قوم پرستی کا ارتقا درہم برہم ہو گیا۔ پاکستان ایک ’تھیو ڈیموکریسی‘ بننے کے بہت قریب پہنچ گیا (ایک ایسا نظام جو جمہوری نظریات کو مذہبی حکمرانی کے ساتھ جوڑتا ہے)۔ درحقیقت کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ پاکستان پہلے ہی تھیوکریٹک بن چکا ہے۔
1980ء کی دہائی کے اواخر میں بہت سے نو اسلام پسند گروہوں نے پارلیمانی یا جمہوری راستے کو استعمال کرنا چھوڑ دیا اور اس کی بجائے مزید پُرتشدد اور عسکریت پسند طریقوں کی طرف مائل ہو گئے۔ دریں اثنا مرکزی دھارے کی اسلام پسند جماعتیں تھیو ڈیموکریسی کے نظریے کو زندہ رکھنے کے لیے جدوجہد کر رہی تھیں حالانکہ یہ دشوار ہوتا جا رہا تھا۔

مرکزی دھارے کے اسلام پسندوں میں مایوسی کا یہ احساس اب بھی موجود ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ محسوس کرتے ہیں کہ تبدیلی آ رہی ہے۔ اور ایسا ہی ہے۔ تھیوڈیموکریسی کے آہستہ آہستہ ابھرنے کی وجہ سے بڑھتا ہوا تشدد اور الجھن نہ صرف معاشرے کے لیے بلکہ خود ریاست کے لیے بھی خطرہ بن چکا ہے۔
آہستہ آہستہ ریاست (طاقتور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے زیر تسلط) اسلامی قوم پرستی کو نئی شکل دینے کی کوشش کر رہی ہے اور حکومت بھی اسی کی پیروی کر رہی ہے۔ یہ ایک سست لیکن محتاط عمل ہونے والا ہے۔
اب مقصد ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کی اسلامی قوم پرستی یا جمہوریہ کو بھارت کی آج کی ہندو قوم پرستی کی مخالفت میں پیش کرنا ہے جسے بہت سے لوگ پسماندہ، جارحانہ اور نسل پرست قرار دیتے ہیں۔ بیان بازی، نصابی کتب اور آئین میں بدلاؤ، خاموش تبدیلی ہے۔
ان تبدیلیوں کی کچھ سادہ مثالیں کم عمری کی شادی پر آئینی پابندی اور بانی پاکستان کی 1947ء کی تقریر کو اسکول کی نصابی کتابوں میں واپس شامل کرنا ہے۔ اس تقریر کو 1977ء میں نصاب سے ہٹا دیا گیا تھا کیونکہ اسے ’بہت سیکولر‘ کے طور پر دیکھا گیا تھا۔
ان تبدیلیوں کا مقصد اسلامی قوم پرستی کو نئی شکل دینا ہے تاکہ وہ زیادہ روادار، کھلے اور ’متوازن‘ نظر آئے جو 21ویں صدی کی ضروریات کے ہم آہنگ ہے۔ لیکن ساتھ ہی وہ حکومت کو کسی ایسے شخص کے خلاف طاقت کے استعمال پر مضبوط کنٹرول دیتی ہے جسے ریاست کے لیے خطرہ سمجھا جاتا ہے۔
جنرل عاصم منیر اسلامسٹ قوم پرست نہیں۔ کیونکہ اس اصطلاح کا کوئی مطلب نہیں، جیسا کہ ہم نے اوپر بحث کی۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ وہ ایک اسلامی قوم پرست ہیں لیکن ان کا ورژن اسلامی قوم پرستی کی نئی، زیادہ موافق شکل پر مبنی ہے جو 1980ء کی دہائی میں تیار ہونے والے سخت ورژن سے قدرے مختلف ہے۔
پاکستان کی بھارت کے ساتھ حالیہ جنگ کے دوران جب پاکستان نے کئی بھارتی لڑاکا طیارے مار گرائے تھے، تب لفظ ’جہاد‘ بہت کم استعمال ہوا تھا۔ لیکن ’اللہ اکبر‘ کا نعرہ بہت عام تھا جوکہ بہت سے آزاد خیال پاکستانیوں میں بھی عام ہے۔ یہ نعرہ صرف جذبات کے اظہار کا ایک ثقافتی طریقہ ہے اور اس کا کوئی خفیہ ایجنڈا نہیں ہے۔ جب تک کہ ریاست مخالف اسلام پسند عسکریت پسند یہ نعرہ بلند نہ کریں تب تک یہ کسی بھی طرح قابل اعتراض ارادے کا اعلان نہیں۔
بدلتا ہوا عالمی نظام اور خطے میں پاکستان کی بڑھتی ہوئی اہمیت ریاست کو اسلامی قوم پرستی کو مسلسل تبدیل کرنے پر مجبور کر رہا ہے۔ لوگ اب سمجھ گئے ہیں کہ قوم پرستی کا جو ورژن 1980ء کی دہائی میں ایک پریشان کن انداز میں تبدیل ہونا شروع ہوا تھا، اس کے مطابق حکومت آج خود کو کس طرح دیکھتی ہے۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔














لائیو ٹی وی