• KHI: Clear 25.4°C
  • LHR: Partly Cloudy 18.3°C
  • ISB: Partly Cloudy 13.1°C
  • KHI: Clear 25.4°C
  • LHR: Partly Cloudy 18.3°C
  • ISB: Partly Cloudy 13.1°C

حکومت کا بلیک مارکیٹ کیخلاف کریک ڈاؤن، ڈالر کی آن لائن تجارت شروع

شائع July 29, 2025
— فائل فوٹو/ رائٹرز
— فائل فوٹو/ رائٹرز

حکومت کی جانب سے ڈالر کی بلیک مارکیٹ کے خلاف کارروائی نے پاکستانی روپے کو مستحکم کیا، تاہم تاجروں کا کہنا ہے کہ غیر رسمی تجارت تیزی سے اسمارٹ فونز اور گھروں پر ترسیل کی جانب منتقل ہو رہی ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق بہت سی غیر لائسنس یافتہ ایکسچینج کی دکانیں 22 جولائی سے بند ہیں، جب فوجی خفیہ ایجنسی نے اس شعبے کے نمائندوں کو امریکی ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت پر وضاحت دینے کے لیے طلب کیا، اس کے فوراً بعد وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے چھاپے مارے، جو مالی جرائم اور اسمگلنگ سے نمٹتی ہے۔

کارروائی کے آغاز کے بعد روپے کی قدر جولائی میں تیزی سے بحال ہوئی، اوپن مارکیٹ میں روپے کی قدر 19 جولائی کو 288.6 روپے فی ڈالر سے کم ہو کر کر حالیہ سیشنز میں تقریباً 286 روپے فی ڈالر ہو گئی۔

لیکن تاجر اور بینکرز کا کہنا ہے کہ تجارت جاری ہے، جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ کارروائی کے اثرات عارضی ہو سکتے ہیں۔

بلیک مارکیٹ سرکاری چینلز سے باہر کام کرتی ہے اور اس میں غیر مجاز ڈیلرز، ذاتی نیٹ ورکس، اور ڈیجیٹل پیئر ٹو پیئر ایکسچینجز شامل ہیں، جہاں گاہک ٹیکس، پیچیدہ کاغذی کارروائی سے بچنے اور سرکاری کرنسی خریداری کی حدوں کو نظر انداز کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

طویل عرصے سے بلیک منڈی کرنسی سودوں کے لیے مشہور پشاور میں یادگار چوک کے علاقے کی بہت سی دکانیں بند ہیں، حالانکہ کچھ تاجر اب بھی خفیہ طور پر گلیوں کے اندر چھوٹے بوتھوں میں کام کر رہے ہیں۔

ایک تاجر احمد (پورا نام ظاہر نہیں کیا) نے بتایا کہ ’تجارت نہیں رکی، یہ بس منتقل ہو گئی ہے، اب یہ واٹس ایپ پر ہے، اگر آپ کسی کو جانتے ہیں، تو ڈالر آپ کے گھر آ جاتے ہیں۔‘

دوسرے تاجر گل نے بھی پورا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’بڑے کھلاڑی محفوظ مقامات پر منتقل ہو گئے اور کام جاری رکھا ہے۔

حتی کہ ریٹیل خریدار بھی رسمی فارن ایکسچینج مارکیٹ کو نظر انداز کر رہے ہیں، کراچی میں ایک ملٹی نیشنل کمپنی کے منیجر حسن نے بتایا کہ سخت دستاویزات کے باعث وہ غیر رسمی فارن ایکسچینج چیٹ میں چلے گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’وہاں ہر شخص خریدار یا بیچنے والا ہے، کوئی درمیانی شخص نہیں، کوئی کمیشن نہیں، کبھی کبھی نقدی ہوتی ہے، کبھی بینک ٹرانسفر، کبھی کرپٹو‘۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز مالیاتی شعبے کے ذرائع نے دعویٰ کیا تھا کہ بینکوں اور ایکسچینج کمپنیوں پر ڈالر کی قیمت کو موجودہ مارکیٹ سطح سے نیچے لانے کے لیے دباؤ میں اضافہ ہو رہا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد میں پیر کو ایک اہم اجلاس منعقد ہوا تھا، جس میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی)، وزارت خزانہ اور بینکوں کے سینئر حکام نے شرکت کی، اجلاس میں زرمبادلہ کی شرح کو مستحکم کرنے اور ڈالر کی قیمت کو کم کرنے کے اقدامات پر غور کیا گیا تھا۔

تاہم کچھ بینکرز نے تحفظات کا اظہار کیا تھا، ان کا کہنا تھا کہ حکومت جو شرح چاہتی ہے وہ مارکیٹ کے حالات کی عکاسی نہیں کرتی، ایک بینکنگ ذرائع نے بتایا تھا کہ حکومت کی طرف سے مخصوص ڈالر ریٹ کے بارے میں وضاحت نہیں دی گئی، لیکن ہدایت واضح ہے ’قیمت کم رکھنی ہے‘۔

رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ بینکرز خبردار کر رہے ہیں کہ اگر ڈالر کی قیمت کو مصنوعی طور پر نیچے رکھا گیا تو اس سے طلب غیر رسمی مارکیٹ کی طرف جا سکتی ہے، جیسا کہ 2 سال قبل ہوا تھا، ایک بینکر نے کہا تھا کہ ’مارکیٹ کے بنیادی اصولوں کے خلاف جانا ایک غیر قانونی متوازی مارکیٹ پیدا کر سکتا ہے، جو زیادہ نقصان دہ ہوگا‘۔

کارٹون

کارٹون : 15 دسمبر 2025
کارٹون : 14 دسمبر 2025