• KHI: Sunny 17.3°C
  • LHR: Sunny 11.5°C
  • ISB: Partly Cloudy 11.9°C
  • KHI: Sunny 17.3°C
  • LHR: Sunny 11.5°C
  • ISB: Partly Cloudy 11.9°C

خیبرپختونخوا حکومت کی باجوڑ آپریشن کی مخالفت، کرفیو ختم کرنے کے عزم کا اظہار

شائع July 30, 2025
فورسز نے گن شپ ہیلی کاپٹروں کی مدد سے لوئی ماموند میں ’آپریشن سربکف‘ کا آغاز کیا تھا۔
—فوٹو: اسکرین گریب
فورسز نے گن شپ ہیلی کاپٹروں کی مدد سے لوئی ماموند میں ’آپریشن سربکف‘ کا آغاز کیا تھا۔ —فوٹو: اسکرین گریب

خیبر پختونخوا حکومت نے وفاق کی جانب سے اعتماد میں نہ لینے تک باجوڑ میں حالیہ شروع کیے گئے فوجی آپریشن کی مخالفت کی ہے، اور ضلع کے 16 علاقوں میں گزشتہ روز لگائے گئے 3 روزہ کرفیو کو ختم کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔

سیکورٹی فورسز نے گن شپ ہیلی کاپٹروں اور توپ خانے کی مدد سے منگل کو تحصیل لوئی ماموند میں دہشت گردوں کے خلاف ’آپریشن سربکف‘ کا آغاز کیا تھا، باجوڑ اور خیبر پختونخوا کے کچھ دیگر اضلاع کے قبائلی عمائدین نے طویل عرصے سے کسی بھی فوجی آپریشن کی مخالفت کی ہے، ان کا کہنا ہے کہ اس سے نقل مکانی اور دیگر مسائل پیدا ہوں گے۔

اگرچہ سیکیورٹی فورسز کی جانب سے باضابطہ تصدیق نہیں کی گئی، مگر ذرائع کے مطابق کم از کم 4 دہشت گرد ہلاک، تقریباً 12 زخمی اور 10 کے قریب گرفتار کیے گئے ہیں، مقامی افراد کا کہنا ہے کہ جھڑپوں کے دوران ایک بچہ اور ایک اور شہری جاں بحق، جب کہ 2 بچوں اور ایک خاتون سمیت 8 افراد زخمی ہوئے۔

پشاور میں پی ٹی آئی کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور نے کہا کہ ہم کسی بھی فوجی آپریشن کے حق میں نہیں جب تک صوبائی حکومت کو اعتماد میں نہ لیا جائے۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ ہماری فوج اور عوام کے درمیان اعتماد کا رشتہ شہید ہونے والے عام شہریوں اور باجوڑ میں ہونے والے نقصانات کے باعث متاثر ہو رہا ہے، اور اس فقدان اعتماد کی وجہ سے ملک کی انسداد دہشت گردی کی پالیسی ناکام ہو رہی ہے۔

اجلاس میں یہ عزم کیا گیا کہ باجوڑ کے مختلف علاقوں میں کرفیو کو آج ختم کیا جائے گا، تاہم اس کا باضابطہ اعلان تاحال نہیں کیا گیا۔

یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ آپریشن کے حوالے سے آئندہ کی حکمت عملی خیبر پختونخوا اسمبلی میں بحث کے بعد طے کی جائے گی۔

وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور نے کہا کہ ہم اپنے عوام کے ساتھ کھڑے ہیں، ہم اپنے عوام کے لیے ہر حد تک جائیں گے، ہم اپنے وطن کو اُن فیصلوں کی نذر نہیں کر سکتے جو ہم پر مشاورت کے بغیر مسلط کیے جائیں۔

اجلاس میں سیکیورٹی صورتحال اور عوامی خدشات پر غور کے بعد کئی فیصلے کیے گئے۔

وزیراعلیٰ نے تمام ڈپٹی کمشنرز کو ہدایت دی کہ صوبائی محکمہ داخلہ کی اجازت کے بغیر کوئی کرفیو نافذ نہ کیا جائے، خواہ صورت حال کتنی ہی سنگین کیوں نہ ہو، مزید برآں، دفعہ 144 کے نفاذ کے اختیارات بھی محکمہ داخلہ کو منتقل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

پی ٹی آئی کی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں خیبرپختونخوا ایکشنز (برائے امدادِ سول پاور) آرڈیننس 2019 کو منسوخ کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا، جس کے لیے قانون سازی جمعہ کے اجلاس میں متوقع ہے۔

یہ آرڈیننس فوجی کارروائیوں کے دوران قائم کردہ حراستی مراکز کو قانونی تحفظ فراہم کرتا تھا، جیسا کہ 2011 کے دو ضابطے جنہیں قبائلی علاقوں میں نافذ کیا گیا تھا۔

اجلاس میں گزشتہ ہفتے ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس (ایم پی سی) میں کیے گئے فیصلوں کی بھی توثیق کی گئی، جس میں گنڈا پور نے ایک اور فوجی آپریشن کی مخالفت کی اور ہر قسم کے مسلح گروہوں کے خلاف کارروائی کرنے کا عزم ظاہر کیا۔

وزیراعلیٰ گنڈا پور نے کہا کہ وہ چیف آف آرمی اسٹاف فیلڈ مارشل عاصم منیر سے ملاقات کریں گے، تاکہ صوبے کی امن و امان کی صورت حال پر بات کی جا سکے۔

انہوں نے اعلان کیا کہ آئندہ 10 دنوں میں مختلف اضلاع کی مشترکہ جرگے منعقد کیے جائیں گے، جس کے بعد تمام متاثرہ علاقوں کے عمائدین کا ایک بڑا جرگہ بلایا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ان جرگوں میں کیے گئے فیصلوں کی روشنی میں پالیسیوں پر نظر ثانی کی جائے گی، اور ان پالیسیوں کو ان ذمہ داران تک پہنچایا جائے گا جو ہماری سرحدوں کے محافظ ہیں۔

وزیراعلیٰ نے یہ بھی کہا کہ شہید ہونے والے فوجی اہلکاروں کو غلط پالیسیوں کے باعث مناسب صلہ نہیں ملا، ہم بار بار ان پالیسیوں پر نظرثانی کا مطالبہ کر چکے ہیں۔

باجوڑ میں احتجاج

دوسری جانب، پی ٹی آئی کے رکن صوبائی اسمبلی انور زیب خان نے کہا کہ باجوڑ کے عمری چوک میں مظاہرین جمع ہو رہے ہیں تاکہ بغیر کسی اعلان کے ہونے والے آپریشن کے خلاف احتجاج کیا جا سکے۔

![ . ]() انہوں نے مظاہرے کی تصاویر بھی شیئر کیں جن میں سیکڑوں افراد سڑک پر جمع نظر آئے۔

یہ احتجاج وڑ ماموند تحصیل کے رہائشیوں کے گزشتہ روز کے مظاہرے کے بعد سامنے آیا ہے، جس میں انہوں نے مطالبہ کیا تھا کہ آپریشن کے دوران عام شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔

انور زیب کے علاوہ ایم پی ایز ڈاکٹر حمیدالرحمٰن اور محمد نثار خان، سابق ایم این اے گل ظفر خان، اور ایم این اے مبارک زیب خان، جو قبائلی اضلاع پر وزیر اعظم کے معاون خصوصی ہیں، نے بھی آپریشن اور کرفیو کی مذمت کی ہے۔

سابق سینیٹر اور جماعت اسلامی کے رہنما مشتاق احمد خان نے بھی آپریشن پر تحفظات کا اظہار کیا اور حکام سے اسے فوری روکنے کا مطالبہ کیا۔

عوامی نیشنل پارٹی نے بھی فوجی کارروائی کی مذمت کی ہے، پارٹی کے سربراہ سینیٹر ایمل ولی خان اور صوبائی صدر میاں افتخار حسین نے اس کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھایا، انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت کسی فوجی آپریشن کے لیے صوبائی حکومت کی منظوری ضروری ہے۔

شہریوں اور سیکیورٹی اہلکاروں کیلئے امداد

وزیراعلیٰ نے باجوڑ آپریشن کے بعد امن و امان کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے ایک علیحدہ اجلاس کی صدارت بھی کی۔

وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کو متعلقہ حکام نے صورتحال پر بریفنگ دی، ان کے دفتر سے جاری بیان کے مطابق وزیراعلیٰ نے باجوڑ واقعے میں شہید ہونے والے شہریوں اور سیکیورٹی اہلکاروں کے اہل خانہ سے تعزیت کا اظہار کیا اور ان کے لیے 10 لاکھ روپے فی کس امداد کا اعلان کیا۔

اسی طرح زخمیوں کے لیے ڈھائی لاکھ روپے فی کس امداد کا اعلان کیا گیا۔

اس اجلاس میں خیبر پختونخوا کے چیف سیکریٹری اور آئی جی ذوالفقار حمید سمیت دیگر اعلیٰ حکام بھی شریک تھے۔

یہ پیش رفت خیبر ضلع کی وادی تیراہ میں 7 مظاہرین گولی لگنے سے جاں بحق اور 16 زخمی ہونے کے صرف چند دن بعد پیش سامنے آئی ہے۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے خوارج کے ہاتھوں پرامن شہریوں پر فائرنگ کی مذمت کی تھی، یہ اصطلاح ریاست کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے لیے استعمال کرتی ہے، تاہم، ذرائع اور مظاہرین کے مطابق، تنصیبات کی حفاظت پر مامور سیکیورٹی اہلکاروں نے ہجوم کو کنٹرول کرنے کے لیے فائرنگ کی تھی۔

واقعے کے بعد سیکیورٹی حکام نے تیراہ کے عمائدین سے ملاقات کی اور ان کے مطالبے پر متاثرین کے لیے امداد کا اعلان کیا تھا، خیبرپختونخوا حکومت نے بھی الگ سے 10 لاکھ روپے فی متوفی اور ڈھائی لاکھ روپے فی زخمی کا اعلان کیا۔

کارٹون

کارٹون : 15 دسمبر 2025
کارٹون : 14 دسمبر 2025