’محض فلسطینی ریاست تسلیم کرنے کے یورپی اقدام سے کوئی تبدیلی نہیں آئے گی‘
اسرائیل نشانہ بنائے جانے والے غزہ کے بعض علاقوں میں دوبارہ حملے کرنے سے پہلے مختصر وقفہ لے رہا ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر اسرائیل کی جانب سے کی جانے والی نسل کشی میں 10 گھنٹے کا یہ وقفہ اس کے نزدیک بڑی مراعات دینے کے مترادف ہے۔
صہیونی رکاوٹوں سے صرف چند ٹرکوں کو گزرنے کی اجازت دی گئی ہے تاکہ جان بچانے کے لیے امدادی سامان غزہ میں داخل ہو سکے، اس کے علاوہ اردن یا اماراتی طیارے فضا سے امدادی سامان گرا رہے ہیں لیکن یہ کوششیں کافی نہیں جبکہ یہ کسی حد تک خطرناک بھی ہیں۔
رواں ہفتے اسرائیلی تنظیم ’بیٹ سیلم‘ اور فزیشن فار ہیومن رائٹس دونوں نے خواہ تاخیر سے ہی سہی لیکن غزہ میں جاری نسل کشی کو تسلیم کیا ہے۔ یہ اہم پیش رفت ہے۔ اسرائیلی شہریوں کی کم لیکن بڑھتی ہوئی تعداد جن میں عرب اور یہودی دونوں شامل ہیں، انہوں نے اپنے نام پر کیے جانے والے مظالم کے خلاف آواز اٹھانا شروع کردی ہے۔ لیکن جس طرح غزہ میں امداد کے داخلے کی اجازت دی جارہی ہے، اسی طرح یہ آوازیں بھی صہیونی دیوار ہلانے کے لیے کافی نہیں۔
یہی بات ان مغربی اتحادیوں کے بارے میں کہی جا سکتی ہے جو اسرائیل کے گھناؤنے اقدامات کو روکنے کے لیے کوئی اقدام کرنے کے بجائے محض مذمت کرتے ہیں۔ فرانس کی جانب سے فلسطینی ریاست تسلیم کرنے کے اعلان کا اسرائیل اور امریکا نے مخالفت سے خیرمقدم کیا ہے لیکن یہاں یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ صدر ایمانوئل میکرون ستمبر میں اقوامِ متحدہ کے اجلاس تک کا انتظار کیوں کررہے ہیں؟
1988ء سے اب تک اقوامِ متحدہ کے 140 رکن ممالک فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرچکے ہیں۔ تاہم یورپی ممالک اس اقدام سے ہچکچا رہے ہیں حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ فلسطین کو تسلیم کرنے سے زیادہ تبدیلی نہیں آئے گی۔
تقریباً 80 سال قبل ایک ایسے وقت میں کہ جب پرانے نوآبادیاتی نظام ختم ہونا شروع ہو چکا تھا، یورپ نے ایک نئی آباد کار نوآبادیاتی ریاست اسرائیل کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ عجیب اور غیر منصفانہ عمل تھا کہ نازیوں کی وجہ سے ہونے والے ہولوکاسٹ کی تلافی کا راستہ فلسطینی سرزمین پر قبضہ کرنا تھا اور اس مقصد کے حصول کے لیے بہت سے فلسطینیوں کو قتل کرنا یا زبردستی ان کی زمین سے بے دخل کرنا تھا۔ لیکن جب جب اسرائیل نے تشدد کا سہارا لیا، تب تب حمایتی ممالک نے ہمیشہ اس کی زیادتیوں پر اسے معاف کیا۔
علامتی اقدامات سے عموماً کوئی تبدیلی نہیں آتی اور فرانس کے صدر کی جانب سے فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کا اقدام بھی اس سے کچھ مختلف نہیں۔ یہ آسٹریلیا اور برطانیہ جیسے ممالک کی منافقت کو اجاگر کرتا ہے جو کبھی اسرائیلی کارروائیوں کو خوفناک قرار دیتے ہیں لیکن نسل کشی کو روکنے کے لیے کچھ نہیں کرتے۔
اس سلسلے میں پہلا قدم یہ ہوگا کہ اسرائیل کو ہتھیاروں کی ترسیل بند کی جائے لیکن اگر امریکا مشرق وسطیٰ میں اپنے اہم اتحادی کی مکمل حمایت کا سلسلہ جاری رکھتا ہے تو اس سے بھی زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔
حتیٰ کہ رواں ہفتے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے غزہ کے بچوں سے متعلق بیان کہ ’وہ بہت بھوکے نظر آتے ہیں۔۔۔ انہیں خوراک کی حقیقی قلت کا سامنا ہے‘، کوئی معنی نہیں رکھتا کہ جب تک امریکا نسل کشی کی سہولت کاری نہ روکے۔ اس کی سرپرستی میں کام کرنے والا نام نہاد غزہ ہیومینٹیرین فاؤنڈیشن، بڑے پیمانے پر قتل و غارت گری کا باعث بن رہا ہے۔
حالات بدلنے کی بہت کم امید ہے۔ غزہ میں غذائی قلت کا شکار کمزور بچوں کی تصاویر، آشوٹز کے کیمپس میں نازی مظالم سے زندہ بچ جانے والوں کی خوفناک تصاویر کی یاد دلاتی ہیں۔
عمر بارتوف جیسے ہولوکاسٹ اسکالرز بھی آج بول رہے ہیں حالانکہ انہوں نے کافی دیر کردی ہے کیونکہ 7 اکتوبر 2023ء کے بعد سے جو کچھ ہورہا ہے وہ انتہائی واضح ہے۔ اس دن حماس اور دیگر گروہوں نے غزہ سے باہر نکل کر ایسے حملے کیے جنہیں شروع میں بہت کم مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا لیکن پھر بعد بڑے پیمانے پر نسل کشی کا جواز فراہم کرنے کے لیے اس حملے کو استعمال کیا گیا۔ یہی وہ لوگ تھے جو اپنی کمیونٹی کبوتزم کا دفاع کرنے میں ناکام رہے کیونکہ وہ مغربی کنارے میں صہیونی آبادکاروں کی سرپرستی کرنے میں زیادہ توجہ مرکوز کیے ہوئے تھے۔
عالمی عدالت انصاف کی جانب سے فیصلہ 2027ء کے اواخر اور 2028ء کے آغاز سے پہلے آنے کا کوئی امکان نہیں جبکہ اس وقت تک تمام قتل وغارت ہوچکی ہوگی اور نسلیں ختم بھی ہوچکی ہوں گی۔ تو پھر ایسے فیصلے کا کیا فائدہ کہ جس میں صرف یہ کہا جائے کہ تاریخ اسرائیل کا ساتھ دینے والوں کو کبھی معاف نہیں کرے گی؟
اسرائیل کی حمایت دنیا بھر میں بہت سی خطوں سے آتی ہے لیکن مشرق وسطیٰ خاص طور پر قصوروار ہے۔ گلوبل ساؤتھ کے ممالک میں بھارت اسرائیل کا حامی ہے جو اس کے نسل کش پرتشدد اقدامات کی بھرپور حمایت کرتا ہے۔ پاکستان بھی امریکی صدر کو نوبیل امن انعام کے لیے نامزد کرکے اسرائیل کے شانہ بشانہ کھڑا ہے۔
رواں ماہ پاکستان بگوٹا میں نسل کشی کو روکنے کے مقصد کے لیے منعقدہ کانفرنس میں شرکت کرنے والے 30 ممالک میں شامل تھا جن میں قطر، عمان، عراق، لبنان اور ترکیہ نے بھی شرکت کی۔ کولمبیا اور جنوبی افریقہ اس کوشش کے مضبوط ترین حامی رہے ہیں۔
چند دہائیوں قبل بھارت بھی اسی صف میں کھڑا تھا۔ وہ کبھی فلسطینی حقوق کے دفاع میں آواز بلند کرتا تھا لیکن آج وہ صہیونی بیانیے کو ترجیح دیتا ہے۔
مستقبل فلسطین کے لیے کیا لے کر آتا ہے، یہ تو بے یقینی ہے لیکن دو ریاستی حل کو واپس لانے کا خیال فریب لگتا ہے جس سے اسرائیل اور اس کے مغربی اتحادیوں بہت پہلے ہی پیچھے ہٹ چکے تھے۔
فلسطینیوں کو بےدخل کرکے غزہ کو سیاحتی مقام میں تبدیل کرنے کے ٹرمپ کے تجویز کردہ غزہ ریویرا منصوبے کو نیتن یاہو کی کابینہ کے بہت سے اراکین کی حمایت حاصل ہے لیکن اس عمل میں لاکھوں جانیں جاسکتی ہیں۔ یہ جانیں اس سے بہت پہلے اس منصوبے کی نذر ہوجائیں گی کہ جب بین الاقوامی عدالت انصاف میں یہ تسلیم کرنے کی ہمت پیدا ہوگی کہ یہ اس صدی میں انسانیت کے خلاف ہونے والا اب تک کا سب سے بدترین جرم ہے۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔













لائیو ٹی وی