دنیا بھر کے ممالک پر عائد کردہ ٹیرف امریکا کو ’ دوبارہ عظیم اور امیر’ بنا رہے ہیں، ٹرمپ

شائع July 31, 2025
— فائل فوٹو: ڈان نیوز
— فائل فوٹو: ڈان نیوز

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ دنیا بھر کے ممالک پر عائد کردہ وسیع ٹیرف (ٹیکس) امریکا کو ’ دوبارہ عظیم اور امیر’ بنا رہے ہیں، کیونکہ مختلف حکومتیں یکم اگست کی ڈیڈلائن سے پہلے واشنگٹن کے ساتھ معاہدے کرنے کے لیے بھاگ دوڑ کر رہی ہیں۔

عالمی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے اپنی سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ ٹروتھ سوشل’ پر لکھا کہ’ ٹیرف امریکا کو دوبارہ عظیم اور امیر بنا رہے ہیں۔’

انہوں نے مزید کہا کہ’ ایک سال پہلے، امریکا ایک مردہ ملک تھا، اور اب یہ دنیا کا سب سے ’مقبول‘ ملک بن چکا ہے۔’

ایک روز قبل، صدر ٹرمپ نے کئی بڑے تجارتی شراکت داروں کو سزا دینے یا فائدہ دینے کے لیے نئے ٹیرف عائد کیے، یہ اقدامات دنیا بھر کی منڈیوں میں ہلچل کا باعث بنے۔

جنوبی کوریا نے آخری لمحات میں 15 فیصد ٹیرف پر اتفاق کر کے خود کو بچا لیا جو اس 25 فیصد شرح سے کہیں کم ہے جس کا ٹرمپ نے پہلے اشارہ دیا تھا۔

تاہم، ٹرمپ نے برازیل پر 50 فیصد کے سخت ٹیرف اور بھارت پر 25 فیصد محصولات عائد کرنے کا اعلان کیا، جبکہ کینیڈا کو متنبہ کیا کہ اگر اس نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا منصوبہ جاری رکھا تو اسے تجارتی نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔

جنوبی کوریا کے لیے 15 فیصد کی شرح جاپان اور یورپی یونین کے ساتھ امریکی تجارتی معاہدوں میں طے شدہ محصولات کے برابر ہے۔

ٹرمپ نے مزید کہا کہ جنوبی کوریا نے امریکا میں 350 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری اور ’ 100 ارب ڈالر’ مالیت کی مائع قدرتی گیس (ایل این جی) یا دیگر توانائی کے ذرائع خریدنے کا وعدہ کیا ہے۔

سیئول کے صدارتی دفتر کے مطابق آٹو موبائل (گاڑیوں) پر ٹیرف ، جو کوریا کی کلیدی برآمدات میں شامل ہیں، بھی 15 فیصد پر برقرار رہےگا۔

ٹرمپ نے برازیل پر نہ صرف بھاری محصولات عائد کیے بلکہ اس جج پر بھی پابندیاں لگائیں جو ان کے دائیں بازو کے اتحادی جائر بولسونارو کے خلاف مقدمے کی نگرانی کر رہے ہیں، جس پر لاطینی امریکا کی سب سے بڑی معیشت میں بغاوت کی کوشش کا الزام ہے۔

تاہم، ان اقدامات پر عمل درآمد کو جمعہ کے بجائے 6 اگست تک مؤخر کر دیا گیا، اور کئی اشیا کو ان بھاری محصولات سے مستثنیٰ قرار دیا گیا، جن میں اورنج جوس، سول طیارے، آئرن اور، اور کچھ توانائی کے ذرائع شامل ہیں۔

کینیڈا کو تجارتی دھمکی

ٹرمپ نے خبردار کیا تھا کہ وہ امریکی معاشی طاقت کو استعمال کرتے ہوئے برازیل ، خاص طور پر اس کے سپریم کورٹ کے جج الیگزینڈر ڈی موریس، کو سزا دیں گے، کیونکہ وہ سابق صدر بولسونارو کے خلاف کارروائی کو ’ مخالفانہ مہم’ قرار دیتے ہیں۔

برازیلی صدر لوئیز اناسیو لولا ڈا سلوا نے کہا کہ وہ ’ امریکی صدر کی جانب سے اعلان کردہ اقدامات کے مقابلے میں برازیلی عوام کی خودمختاری کا دفاع کریں گے۔’

ٹرمپ کے تازہ ترین اعلانات میں بھارت کی مصنوعات پر جمعہ سے 25 فیصد ٹیرف عائد کرنا بھی شامل ہے، جو پہلے دی گئی دھمکی سے قدرے کم ہے، کیونکہ واشنگٹن اور نئی دہلی کے درمیان تجارتی معاہدہ نہیں ہوسکا۔

انہوں نے کہا کہ بھارت کو روسی اسلحے اور توانائی کی خریداری پر بھی غیر متعین ’ سزا’ کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔

انہوں نے ٹروتھ سوشل پر لکھا کہ ’ مجھے پروا نہیں کہ بھارت روس کے ساتھ کیا کرتا ہے، وہ دونوں اپنی مردہ معیشتیں لے کر ڈوب جائیں، مجھے فرق نہیں پڑتا، بھارت کے ساتھ ہماری تجارت بہت کم رہی ہے کیونکہ اس کے ٹیرف دنیا میں بلندترین ٹیکسں میں شامل ہیں۔’

کینیڈا اور فلسطین

امریکا اور کینیڈا کے درمیان تجارتی تعلقات بھی خطرے میں آ گئے جب کینیڈا کے وزیر اعظم مارک کارنی نے ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔

ٹرمپ نے ٹروتھ سوشل پر لکھا کہ’ واہ! کینیڈا نے ابھی ابھی اعلان کیا ہے کہ وہ فلسطین کی ریاست کو تسلیم کر رہا ہے، اس کے بعد ہمارے لیے ان کے ساتھ تجارتی معاہدہ کرنا بہت مشکل ہو جائے گا۔’

’امریکا کے لیے بڑا دن‘

بدھ کے روز ٹرمپ نے ایک حکم نامے پر دستخط کیے تھے، جس کے تحت تانبے کی کچھ مصنوعات پر 50 فیصد ٹیرف عائد کیے جائیں گے اور بیرون ملک سے آنے والی کم قیمت اشیاء کے لیے ٹیرف کی چھوٹ ختم کر دی جائے گی۔

تاہم، کاپر اور، کانسنٹریٹس، اور کیتھوڈز جیسے اہم صنعتی سامان کو ان محصولات سے استثنیٰ دیا گیا ہے، جس سے اس شعبے کو کچھ ریلیف ملا ہے۔

ڈیڈ لائن قریب آنے پر امریکی وزیر تجارت ہاورڈ لٹنک نے فاکس نیوز کو بتایا کہ امریکا نے کمبوڈیا اور تھائی لینڈ کے ساتھ تجارتی معاہدے کر لیے ہیں، لیکن ان معاہدوں کی تفصیلات فراہم نہیں کیں۔

دراصل جمعہ کو نافذ کیے جانے والے ان ٹیرف کا اپریل میں اعلان کیا گیا تھا، جن میں تقریباً تمام تجارتی شراکت داروں پر کم از کم 10 فیصد ٹیرف عائد کرنے کی تجویز دی گئی تھی، جنہیں ’ غیر منصفانہ تجارتی پریکٹسز’ کی بنیاد پر جواز دیا گیا تھا۔

یہ شرح بعد میں مختلف معیشتوں جیسے کہ یورپی یونین، جاپان، اور دیگر کے لیے مختلف سطحوں پر بڑھائی جانے والی تھی، لیکن واشنگٹن نے مالیاتی منڈیوں میں اتار چڑھاؤ کے باعث دو بار ان پر عمل درآمد مؤخر کر دیا تھا۔

ٹرمپ نے بدھ کو کہا تھا کہ ’ یکم اگست کی ڈیڈ لائن میں مزید توسیع نہیں ہوگی۔’

اب تک برطانیہ، ویتنام، جاپان، انڈونیشیا، فلپائن، یورپی یونین اور جنوبی کوریا نے واشنگٹن کے ساتھ ابتدائی معاہدے کر لیے ہیں تاکہ سخت شرائط سے بچا جا سکے۔

اگرچہ امریکا اور چین نے ایک دوسرے کی مصنوعات پر سخت ٹیرف عائد کیے تھے، لیکن دونوں ممالک اب کم محصولات کی سطح پر جنگ بندی قائم رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اگرچہ ٹرمپ نے اپنی پالیسی سے حکومتی آمدنی میں اضافے کا وعدہ کیا ہے، معاشی ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ زیادہ ٹیرف افراطِ زر (مہنگائی) کو بڑھا سکتے ہیں اور معاشی ترقی کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 5 دسمبر 2025
کارٹون : 4 دسمبر 2025