شمالی وزیرستان: سیکیورٹی صورتحال کے پیش نظر مکمل کرفیو نافذ، مظاہرین کا قیام امن کا مطالبہ
شمالی وزیرستان میں سیکیورٹی صورتحال کے پیش نظر مکمل کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے، جب کہ ایک امن جرگہ باجوڑ کے مقامی شدت پسندوں کو علاقہ چھوڑنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ اقدامات خیبر پختونخوا کے انضمام شدہ اضلاع میں امن قائم کرنے کی کوششوں کا حصہ ہیں، جہاں حالیہ دنوں میں خاص طور پر افغانستان کی سرحد کے ساتھ شدت پسندانہ سرگرمیوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
جمعہ کے روز شمالی وزیرستان کی تحصیل شیوہ میں امن مارچ ہوا، جس میں علاقے کی بگڑتی ہوئی امن و امان کی صورتحال کے خلاف احتجاج کیا گیا۔
اس اجتماع میں قبائلی عمائدین، تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندگان، اتمانزئی جرگہ، کابل خیل یوتھ، اور پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے کارکنان نے شرکت کی۔
اتمانزئی جرگہ کے ترجمان مفتی بیت اللہ اور دیگر مقررین نے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے ضلع بھر میں بڑھتی ہوئی بدامنی پر تشویش کا اظہار کیا۔
مقررین نے زور دیا کہ عوام مستقل خوف کے سائے میں زندگی گزار رہے ہیں، جس کی بنیادی وجہ شدت پسند عناصر کی دوبارہ موجودگی اور حکومت کی ناقص حکمت عملی ہے، اور ریاستی اداروں سے مطالبہ کیا کہ وہ علاقے میں فوری اور پائیدار امن کو یقینی بنائیں۔
کرفیو کے نفاذ کے بعد ضلعی انتظامیہ نے شہریوں کو گھروں میں رہنے اور سڑکوں پر سفر سے گریز کرنے کی ہدایت کی ہے۔
امن جرگے کی کوششیں
باجوڑ میں (جہاں اس ہفتے کے اوائل میں شدت پسندوں کے خلاف ’آپریشن سربکف‘ شروع کیا گیا تھا) ایک امن جرگے نے مقامی شدت پسند رہنماؤں سے ملاقات کی تاکہ انہیں افغانستان واپس جانے پر آمادہ کیا جا سکے۔
ذرائع کے مطابق کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی مقامی قیادت نے افغان رہنماؤں سے مشاورت کے لیے ایک دن کی مہلت مانگی ہے۔
یہ ملاقات لوئی ماموند تحصیل کے علاقہ لار کلان کی ایک مسجد میں ہوئی، جس میں باجوڑ امن کمیٹی کے 50 رکنی وفد اور ٹی ٹی پی کے رہنماؤں نے شرکت کی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ جرگے کے ارکان کی قیادت صاحبزادہ ہارون رشید کر رہے تھے، اور ممبران میں پی ٹی آئی کے مقامی اراکین اسمبلی ڈاکٹر حمیدالرحمٰن، انور زیب خان، اور سابق ایم این اے گل ظفر خان بھی شامل تھے، انہوں نے شدت پسندوں کے سامنے 2 نکاتی ایجنڈا رکھا۔
پی ٹی آئی کے سینئر رہنما ڈاکٹر خیل الرحمٰن کے مطابق وفد نے شدت پسندوں سے کہا کہ یا تو وہ افغانستان واپس چلے جائیں، یا پہاڑوں کی طرف چلے جائیں اور مقامی آبادی کے درمیان قیام نہ کریں، کیونکہ ان کی موجودگی عام لوگوں کے لیے خطرہ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ٹی ٹی پی کے رہنماؤں نے جرگے کے مطالبات پر غور کے لیے ہفتہ کی دوپہر تک کی مہلت مانگی ہے۔
صاحبزادہ ہارون رشید نے بھی اس کی تصدیق کرتے ہوئے صحافیوں کو بتایا کہ بات چیت کا اگلا دور آج (ہفتہ) ہوگا۔
یہ ملاقات خیبر کی وادی تیراہ میں ہونے والے اسی نوعیت کے ایک اور جرگے کے بعد ہوئی جہاں بر قمبرخیل قبیلے کے جرگے نے ٹی ٹی پی کمانڈروں سے علاقہ چھوڑنے کا مطالبہ کیا تھا۔
اس ملاقات کا نتیجہ بھی تقریباً ویسا ہی نکلا، شدت پسندوں نے افغان قیادت سے مشورے کے لیے وقت مانگا۔
باجوڑ اسکاؤٹس ہیڈ کوارٹر خار میں ایک الگ جرگہ ہوا، جس میں کہا گیا کہ باجوڑ کے پرامن لوگ پاکستان آرمی اور فرنٹیئر کور کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں، تاکہ علاقے میں امن بحال کیا جا سکے۔
باجوڑ اسکاؤٹس کی جانب سے جاری بیان کے مطابق اس جرگے میں مقامی اراکین اسمبلی، سیکیورٹی فورسز، ضلعی انتظامیہ، اور پولیس کے سینئر افسران بھی شریک تھے، جرگے کا مقصد علاقے میں پائیدار امن اور استحکام کے لیے نتیجہ خیز حکمت عملی کو حتمی شکل دینا تھا۔
شرکا سے خطاب کرتے ہوئے فرنٹیئر کور (نارتھ) کے انسپکٹر جنرل میجر جنرل راؤ عمران سرتاج نے کہا کہ انسداد دہشت گردی آپریشنز کا مقصد علاقے میں دیرپا امن اور معمولات زندگی کی بحالی ہے، تاکہ یہاں کے لوگ ایک پرامن ماحول میں ترقی اور خوشحالی کے ساتھ زندگی گزار سکیں۔













لائیو ٹی وی