ملک ریاض نے بحریہ ٹاؤن کو درپیش قانونی مشکلات کے درمیان ’مکالمے اور باوقار حل‘ کی اپیل کردی

شائع August 5, 2025
فائل فوٹو:  ڈان نیوز
فائل فوٹو: ڈان نیوز

پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض نے بحریہ ٹاؤن کو درپیش قانونی مشکلات کے درمیان ’ مکالمے اور باوقار حل’ کی اپیل کردی۔

ملک کی ریاض کی جانب سے یہ اپیل اس وقت سامنے آئی جب اسلام آباد ہائی کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کی جائیداد کی نیلامی روکنے کی درخواستیں مسترد کر دی تھیں، یہ اثاثے 190 ملین پاؤنڈ کے العزیزیہ ٹرسٹ کیس میں پلی بارگین معاہدے کے تحت منسلک کیے گئے تھے۔

یہ پیش رفت قومی احتساب بیورو (نیب) کے ان اقدامات کے بعد سامنے آئی ہے جو بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض کے خلاف کیے گئے، جو اس کیس میں مفرور قرار دیے جا چکے ہیں۔

ملک ریاض نے ایکس پر بیان دیتے ہوئے کہا کہ’ میں دل کی گہرائیوں سے آخری اپیل کرتا ہوں کہ ہمیں سنجیدہ مکالمے اور ایک باوقار حل کی طرف واپس جانے کا موقع دیا جائے۔’

انہوں نے مزید کہا کہ’ اس مقصد کے لیے ہم یقین دلاتے ہیں کہ ہم کسی بھی ثالثی میں مکمل شرکت کریں گے اور اس کے فیصلے پر سو فیصد عملدرآمد کریں گے، اگر ثالثی کے فیصلے میں ہمیں رقم کی ادائیگی کا پابند کیا گیا، تو انشاء اللہ ہم اسے ادا کریں گے۔’

ملک ریاض نے امید ظاہر کی کہ پاکستان کے ادارے ’ انصاف، حکمت اور دانشمندی سے کام لیں گے، اور ہمیں اس مشکل موڑ سے نکالنے میں مثبت کردار ادا کریں گے۔’

انہوں نے کہا کہ بحریہ ٹاؤن کی ملک بھر میں سرگرمیاں بری طرح متاثر ہو چکی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ’ ہمارا کیش فلو مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے، روزمرہ کی سروسز فراہم کرنا ناممکن ہو چکا ہے، ہم اپنے ہزاروں ملازمین کی تنخواہیں ادا کرنے سے قاصر ہیں، اور صورتحال یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ہمیں ملک بھر میں بحریہ ٹاؤن کی تمام سرگرمیاں مکمل طور پر بند کرنے پر مجبور ہونا پڑ رہا ہے۔’

انہوں نے مزید کہا کہ’ ہم اس آخری قدم سے صرف ایک قدم پیچھے ہیں، لیکن زمینی صورتحال ہر گزرتے لمحے کے ساتھ بگڑتی جا رہی ہے۔’

انہوں نے ان تمام بحریہ ٹاؤن کے رہائشیوں اور اسٹیک ہولڈرز سے معذرت بھی کی جو ان کی ’ مجبوریوں’ کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں، اور کہا کہ’ میں اپنے تمام اہلِ خانہ کا شکریہ ادا کرتا ہوں جو ہمارے ساتھ یہ صدمہ برداشت کر رہے ہیں۔’

یاد رہے کہ 2019 میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) نے ملک ریاض کے خاندان کے ساتھ 190 ملین پاؤنڈ کے تصفیے پر اتفاق کیا تھا۔

اسی سال، سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کی جانب سے کراچی کے ضلع ملیر میں ہزاروں ایکڑ زمین غیر قانونی طریقے سے حاصل کرنے کے عوض 460 ارب روپے کی تصفیے کی رقم قبول کر لی تھی۔

این سی اے کے فیصلے کے بعد ملک ریاض نے ٹوئٹ میں کہا تھا کہ برآمد شدہ رقم سپریم کورٹ کو جائے گی، چنانچہ وہ رقم حکومت کے اکاؤنٹ کے بجائے سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں منتقل کی گئی۔

اس وقت کے وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ رقم براہ راست ریاست کے پاس آئے گی، لیکن بعد میں اس پر سوالات اٹھے کہ آیا سپریم کورٹ ریاست کا حصہ ہے یا نہیں، شہزاد اکبر نے کہا تھا کہ’ کیا سپریم کورٹ حکومت کا حصہ نہیں؟ تو اگر پیسہ سپریم کورٹ کو جاتا ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ پیسہ ریاست کے پاس جاتا ہے۔’

گزشتہ ماہ،اسلام آباد ہائی کورٹ نے نیب کی اس درخواست پر نوٹس جاری کیا تھا، جس میں بحریہ ٹاؤن کی چھ جائیدادوں کی نیلامی پر جاری حکم امتناع ختم کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔

جون میں، نیب نے بحریہ ٹاؤن کراچی زمین کیس میں نامزد افراد کی 450 سے زائد جائیدادیں منجمد کرنے کے احکامات دیے تھے۔

اسی ماہ، اسلام آباد ہائیکورٹ نے بحریہ ٹاؤن کی جائیدادوں کی نیلامی کو روکنے کے لیے حکم امتناع جاری کیا تھا، یہ نیلامی 12 جون کو ہونی تھی۔

ملک ریاض نے گزشتہ سال مئی میں کہا تھا کہ انہیں ’ سیاسی مقاصد’ کے لیے دباؤ میں لایا جا رہا ہے، لیکن انہوں نے کسی کے آگے جھکنے سے انکار کیا۔

انہوں نے یہ واضح نہیں کیا تھا کہ ان پر دباؤ ڈالنے والا کون ہے اور کیوں، ملک ریاض سیاسی جماعتوں، میڈیا، سول اور عسکری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ روابط کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں، اور ماضی میں انہیں ’ ناقابل گرفت’ سمجھا جاتا تھا۔

روزنامہ ’ ڈان’ نے کئی سیاسی ماہرین اور سیاستدانوں سے رابطہ کیا تھا، لیکن بیشتر نے ان کی ’افسوسناک کہانی‘ پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا، یہ کہتے ہوئے کہ ملک ریاض نے یہ واضح نہیں کیا کہ وہ اپنے مسائل کا ذمہ دار کسے ٹھہرا رہے ہیں، اور ان پر کس مقصد کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 21 دسمبر 2025
کارٹون : 20 دسمبر 2025