سرکاری ملازم کو انکوائری یا صفائی کا موقع دیے بغیر برخاست نہیں کیا جاسکتا، سپریم کورٹ
سپریم کورٹ نے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ کسی سرکاری ملازم کو باقاعدہ انکوائری کیے بغیر یا صفائی کا موقع دیے بغیر ملازمت سے برخاست کرنے کی بڑی سزا نہیں دی جا سکتی، کیونکہ یہ فطری انصاف کے اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق جسٹس عقیل احمد عباسی نے اپنے تحریر کردہ 6 صفحات پر مشتمل فیصلے میں کہا کہ ’بڑی سزا دینے کی صورت میں فطری انصاف کے اصول تقاضا کرتے ہیں کہ باقاعدہ انکوائری کی جائے اور سرکاری ملازم کو دفاع اور ذاتی سماعت کا مکمل موقع فراہم کیا جائے‘۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ عوامی فنڈز سے متعلق مقدمات میں خصوصی احتیاط اور مکمل شفافیت کے ساتھ انکوائری کی جانی چاہیے تاکہ اگر کوئی خورد برد یا بدعنوانی ہوئی ہو تو اس سے متعلقہ رقم بازیاب کی جا سکے اور ذمہ دار اہلکار کو قانون کے مطابق سزا دی جا سکے۔
یہ فیصلہ جسٹس مسرت ہلالی کی سربراہی میں قائم بینچ نے سنایا، جس میں جسٹس عقیل احمد عباسی بھی شامل تھے۔ بینچ نے ملک محمد رمضان کی پنجاب سروس ٹربیونل لاہور کے 24 جنوری 2022 کے فیصلے کے خلاف اپیل کی سماعت کی۔
یہ معاملہ ڈسٹرکٹ کوآرڈینیشن افسر/ڈسٹرکٹ کلیکٹر میانوالی کی جانب سے ملک محمد رمضان کو پنجاب ایمپلائز ایفیشنسی، ڈسپلن اینڈ اکاؤنٹیبلٹی ایکٹ 2006 (پیڈا) کے تحت فنڈز کی خورد برد اور جعل سازی کے الزامات میں ملازمت سے برخاست کیے جانے سے متعلق ہے، رمضان پر الزام تھا کہ انہوں نے متعلقہ حکام سے دستخط کروا کر چیکوں کی رقم میں جعل سازی کے ذریعے اضافہ کیا۔
انہوں نے پہلے محکمانہ اپیل دائر کی، جو 11 نومبر 2016 کو مسترد کر دی گئی، بعد ازاں ان کی نظرثانی کی درخواست بھی 2 مارچ 2018 کو رد کر دی گئی، جس کے بعد انہوں نے ٹربیونل سے رجوع کیا، ٹربیونل نے ان کی اپیل 24 جنوری 2022 کو مسترد کر دی، جس کے خلاف انہوں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔
خامیاں
سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ چیکوں میں رقوم کی تبدیلی اور فنڈز کی مبینہ خورد برد کے الزامات کو حتمی شواہد کے ساتھ ثابت کرنا ضروری تھا، اور اس سلسلے میں مخصوص تفصیلات سامنے لا کر ملزم کا سامنا کرایا جانا چاہیے تھا۔
جسٹس عقیل کے مطابق لیکن نہ تو چیک کسی ہینڈ رائٹنگ ماہر کو تصدیق کے لیے بھیجے گئے، نہ ہی انکوائری کے ایسے اقدامات نظر آتے ہیں، فیصلے میں نشاندہی کی گئی کہ تحقیقات کرنے والے افسر اور شکایت کنندہ ایک ہی شخص، غلام مصطفیٰ شیخ تھے، جو انہی چیکوں کے مصنف اور دستخط کنندہ بھی تھے جن میں تبدیلی کا الزام لگایا گیا۔
عدالت نے نوٹ کیا کہ غلام مصطفیٰ کے خلاف کوئی محکمانہ کارروائی نہیں کی گئی، اس لیے تفتیشی افسر کی جانبداری اور ملک رمضان کو جھوٹے مقدمے میں ملوث کیے جانے کا امکان رد نہیں کیا جا سکتا۔
سپریم کورٹ نے افسوس کا اظہار کیا کہ اس معاملے میں احتیاط اور شفافیت کا مظاہرہ نہیں کیا گیا، انکوائری کا ریکارڈ بھی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا، اور نہ ہی کوئی مضبوط یا قابل اعتماد شواہد فراہم کیے گئے، اس کے علاوہ درخواست گزار کو صفائی کا موقع بھی نہیں دیا گیا جبکہ انہیں ملازمت سے برخاست کرنے جیسی بڑی سزا سنا دی گئی۔
بحالی کا حکم
سپریم کورٹ نے اپیل منظور کرتے ہوئے ٹربیونل کا فیصلہ کالعدم قرار دیا اور درخواست گزار کو دوبارہ ملازمت پر بحال کرنے کا حکم جاری کیا۔
ساتھ ہی کیس کو متعلقہ محکمانہ اتھارٹی کو واپس بھیج دیا گیا تاکہ نئے سرے سے انکوائری کی جا سکے اور ملک رمضان کو پیڈا ایکٹ کی دفعات 9 اور 10 کے تحت صفائی کا مکمل موقع فراہم کیا جائے۔
فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ ایسی انکوائری فیصلہ موصول ہونے کے 3 ماہ کے اندر مکمل کی جانی چاہیے۔












لائیو ٹی وی