انسانی سرگرمیوں سے موسمیاتی تبدیلی میں شدت، رواں سال پاکستان میں 15 فیصد زائد بارشیں

شائع August 7, 2025
گرانتھم انسٹیٹیوٹ، امپیریل کالج برطانیہ کے ورلڈ ویدر ایٹریبیوشن گروپ کے 18 سائنسدانوں اور محققین نے رپورٹ تیار کی —فائل فوٹو: ڈان
گرانتھم انسٹیٹیوٹ، امپیریل کالج برطانیہ کے ورلڈ ویدر ایٹریبیوشن گروپ کے 18 سائنسدانوں اور محققین نے رپورٹ تیار کی —فائل فوٹو: ڈان

پاکستان اس سال موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے شدید متاثر ہوا اور اسے معمول سے 15 فیصد زیادہ بارشوں کا سامنا کرنا پڑا، یہ دنیا کے اُن ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے سب سے کم تیار ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق برطانیہ کے امپیریل کالج کے گرانتھم انسٹی ٹیوٹ میں قائم ورلڈ ویدر ایٹریبیوشن گروپ سے وابستہ 18 سائنس دانوں اور محققین کے ایک گروپ نے قرار دیا کہ یہ غیر معمولی صورتحال انسانی سرگرمیوں کا نتیجہ تھی، جنہوں نے موسمیاتی تبدیلی کے بحران کو مزید بڑھا دیا۔

اس گروپ میں پاکستان، برطانیہ، فرانس اور نیدرلینڈز کی یونیورسٹیوں اور محکمہ موسمیات سے تعلق رکھنے والے ماہرین شامل تھے، انہوں نے کہا کہ حالیہ سیلاب معمول سے زیادہ شدید بارشوں کی وجہ سے آئے، اور اس غیر معمولی موسم کی ذمہ داری انسانی سرگرمیوں پر عائد کی۔

پاکستان میں مون سون کا موسم جون کے آخر میں شروع ہوتا ہے اور ستمبر میں ختم ہوتا ہے، یہ موسم ملک کی سالانہ بارش کا 70 سے 80 فیصد حصہ لاتا ہے، لیکن اکثر اوقات سیلاب کا باعث بنتا ہے۔

اگرچہ مون سون کی بارشیں آبی ذخائر کو بھرنے کے لیے بہت اہم ہیں، لیکن حالیہ برسوں میں یہ مزید شدید ہو گئی ہیں۔

امپیریل کالج لندن کے سینٹر فار انوائرمینٹل پالیسی سے وابستہ ڈاکٹر مریم زکریا نے کہا کہ پاکستان کا مون سون اس قدر شدید ہو چکا ہے کہ اب معمولی حد تک تیز بارش والے مہینے بھی زیادہ ہلاکتوں کا سبب بن رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ رپورٹ میں تجزیہ کی گئی بارشیں ’ریکارڈ توڑ‘ نہیں تھیں، لیکن یہ ایک وسیع تر رجحان کی نشاندہی کرتی ہیں، موسمیاتی تبدیلی سیلاب کو تیزی سے خطرناک بنا رہی ہے۔

شدید مون سون بارشوں کے بعد آنے والے ان سیلابوں نے پاکستان کے شمالی علاقوں کو بری طرح متاثر کیا۔

ملک کے کئی اضلاع میں ایمرجنسی نافذ کی گئی، سیلابی پانی نے سڑکیں ڈبو دیں، مکانات تباہ کر دیے اور فصلیں برباد کر دیں۔

اس مطالعے میں تجزیہ کیا گیا کہ 26 جون سے 3 اگست کے دوران، ملک بھر میں 300 افراد جاں بحق ہوئے، جن میں سے 242 اموات شمالی پاکستان کے علاقے میں ہوئیں۔

تاریخی بارشوں کے ڈیٹا سے معلوم ہوا کہ حالیہ شمالی پاکستان میں ہونے والی بارشیں دیگر برسوں کے مقابلے میں خاص طور پر غیر معمولی نہیں تھیں۔

آج کی ماحولیات، جس میں عالمی درجہ حرارت 1.3 ڈگری سینٹی گریڈ بڑھ چکا ہے، اسی طرح کے 30 دن کے شدید مون سون کے واقعات ہر 5 سال بعد متوقع ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ اگر انسانوں نے فوسل فیول جلا کر ماحول کو گرم نہ کیا ہوتا تو بارش کی شدت کہیں کم ہوتی، محققین نے پایا کہ موسم کے ڈیٹا کو آب و ہوا کے ماڈلز کے ساتھ ملا کر موسمیاتی تبدیلی نے مون سون کی شدید بارشوں کو تقریباً 15 فیصد زیادہ شدید بنا دیا ہے۔

فوسل فیول سے چھٹکارا

پاکستان (جو دنیا کی تاریخی کاربن کے اخراج کا صرف 0.5 فیصد ذمہ دار ہے) موسمیاتی اثرات سے نمٹنے کی تیاری کے لحاظ سے دنیا میں 152ویں نمبر پر ہے، یہ نمبر ہیٹ ویوز، خشک سالی اور سیلاب کے اثرات کو مزید شدید بنا دیتا ہے۔

رپورٹ میں موسمیاتی آفات سے بچاؤ کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت پر زور دیا گیا تاکہ کمیونٹیز کو ان خطرات سے بچایا جا سکے۔

رپورٹ میں خبردار کیا گیا کہ پاکستان میں مون سون کی بارشیں اس وقت تک مزید شدید ہوتی رہیں گی، جب تک دنیا فوسل فیول سے قابلِ تجدید توانائی کی طرف منتقل نہیں ہو جاتی۔

ڈاکٹر مریم زکریا نے کہا کہ درجہ حرارت میں ہر ایک دسویں حصے کے اضافے سے مون سون کی بارشیں زیادہ شدید ہوں گی، جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ فوسل فیول سے قابل تجدید توانائی کی طرف تیز تر منتقلی کتنی ضروری ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر موسمیاتی موافقت کے لیے فوری مالی امداد کی ضرورت ہے، اور ملک کو موسمیاتی اثرات سے نمٹنے کے لیے سالانہ 40 سے 50 ارب ڈالر درکار ہیں۔

اگر بڑے پیمانے پر تبدیلی پر مبنی اقدامات نہ کیے گئے، تو اقوام متحدہ کی ایک سابقہ رپورٹ کے مطابق 2050 تک شدید موسمی حالات پاکستان کو تقریباً ایک ہزار 200 ارب ڈالر کا نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

کوپ 29 اجلاس میں امیر ممالک (جو سب سے زیادہ کاربن کے اخراج کے ذمہ دار ہیں) نے ترقی پذیر ممالک کے لیے 2035 تک 300 ارب ڈالر کی موسمیاتی مالی امداد بڑھانے پر اتفاق کیا تھا۔

تاہم رپورٹ نے کہا کہ ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے فراہم کردہ موجودہ امداد اور درکار رقم کے درمیان اب بھی بڑا خلا موجود ہے۔

رپورٹ نے اقوام متحدہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ترقی یافتہ ممالک فی الحال سالانہ صرف 28 ارب ڈالر فراہم کر رہے ہیں، جو درکار رقم سے 187 سے 359 ارب ڈالر کم ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ 2022 کے سیلابوں میں ایک ہزار 700 سے زائد افراد ہلاک ہوئے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کے لیے کتنا غیر محفوظ ہے، لیکن 3 سال بعد بھی مون سون کے سیلاب ہلاکتوں کا سبب بن رہے ہیں۔

تحقیق کے مطابق پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کو اب سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے، لیکن بین الاقوامی مالی امداد اور طویل المدتی منصوبہ بندی کی کمی ہے، شمالی پاکستان میں ریکارڈ توڑ 48.5 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت اور اس کے بعد جولائی میں مہلک بارشیں، اس بات کی ایک اور واضح یاد دہانی ہیں کہ صرف 1.3 سینٹی گریڈ کی عالمی گرمی میں ہی پاکستان کن خطرات سے گزر رہا ہے۔

موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے لیے ڈان میڈیا گروپ کی مہم بریتھ پاکستان کا حصہ بنیں۔

کارٹون

کارٹون : 4 دسمبر 2025
کارٹون : 3 دسمبر 2025