محصولات میں اضافے سے امریکا کے بڑے تجارتی شراکت دار ممالک پریشان

شائع August 7, 2025
فوٹو: رائٹرز
فوٹو: رائٹرز

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے درجنوں ممالک سے درآمدات پر عائد کردہ زائد ٹیکس کے نفاذ کے بعد واشنگٹن کے تجارتی شراکت دار بہتر معاہدہ حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے درجنوں ممالک سے درآمدات پر عائد کردہ زائد ٹیکس کے نفاذ کے بعد امریکا کے تجارتی شراکت دار جیسے کہ سوئٹزرلینڈ، برازیل اور بھارت، جمعرات کو بھی ’ بہتر معاہدہ ’ کرنےکی کوششوں میں مصروف رہے۔

امریکی کسٹمز اور بارڈر پروٹیکشن ایجنسی نے یہ بلند ٹیرف جو 10 فیصد سے 50 فیصد تک ہیں، جمعرات کی صبح 12:01 بجے (پاکستانی وقت صبح 9:01 بجے) سے وصول کرنا شروع کر دیے، جو کئی ہفتوں کی بے یقینی اور اہم تجارتی شراکت داروں کے ساتھ ہنگامی مذاکرات کے بعد نافذ کیے گئے۔

برازیل اور بھارت کے رہنماؤں نے عہد کیا کہ وہ ٹرمپ کی سخت گیر سودے بازی کی پالیسی سے مرعوب نہیں ہوں گے، حالانکہ ان کے مذاکرات کار بلند ترین محصولات سے استثنیٰ حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہے۔

یہ نئے نرخ ٹرمپ کی اُس حکمت عملی کا امتحان ہوں گے، جس کا مقصد عالمی سپلائی چین میں شدید خلل، مہنگائی میں اضافے یا شراکت دار ممالک کی جانب سے سخت جوابی اقدامات کے بغیر امریکا کے تجارتی خسارے کو کم کرنا ہے۔

اپریل میں اپنے ’ یوم آزادی’ پر محصولات کا اعلان کرنے کے بعد ٹرمپ نے اپنی پالیسی میں بار بار تبدیلی کی، اور کچھ ممالک پر درآمدی اشیا پر بہت زیادہ ٹیرف لاگو کیے، جن میں برازیل سے آنے والی اشیا پر 50 فیصد، سوئٹزرلینڈ پر 39 فیصد، کینیڈا پر 35 فیصد اور بھارت پر 25 فیصد تک محصولات شامل ہیں۔

انہوں نے گزشتہ روز بھارت کے روسی تیل کی خریداری پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے بھارتی اشیاء پر مزید 25 فیصد ڈیوٹی لگانے کا اعلان کیا، جو 21 دن بعد نافذ ہو گی۔

ٹرمپ نے ’ ٹروتھ سوشل’ پر اعلان کیا کہ’ جوابی محصولات آج آدھی رات سے نافذ ہو رہے ہیں! اربوں ڈالر، جو زیادہ تر ان ممالک سے آئیں گے جو کئی سالوں سے امریکا کا فائدہ اٹھا رہے تھے، امریکا کی عظمت کو صرف وہ شدت پسند بائیں بازو کی عدالت روک سکتی ہے جو چاہتی ہے کہ ہمارا ملک ناکام ہو!’

یہ محصولات بالآخر ان کمپنیوں کو ادا کرنے پڑتے ہیں جو درآمدات کرتی ہیں، اور ان اشیا کے صارفین کو جو حتمی مصنوعات خریدتے ہیں۔

آٹھ بڑے تجارتی شراکت دار، جو امریکی تجارتی لین دین کا تقریباً 40 فیصد ہیں، ٹرمپ کے ساتھ تجارتی اور سرمایہ کاری کی رعایتوں پر ابتدائی معاہدے کر چکے ہیں، جن میں یورپی یونین، جاپان اور جنوبی کوریا شامل ہیں، جنہوں نے اپنی بنیادی ڈیوٹی کی شرح 15 فیصد تک کم کی۔

برطانیہ کو 10 فیصد شرح دی گئی، جبکہ ویتنام، انڈونیشیا، پاکستان اور فلپائن ٹیکس کی شرح میں کمی کرانے میں کامیاب رہے۔

سوئٹزرلینڈ کی حکومت امریکی درآمدی محصولات سے بچنے کے لیے اگلا لائحہ عمل طے کرنے کے لیے آج ایک ہنگامی اجلاس منعقد کررہی ہے۔

جنوبی افریقہ کی جانب سے شرحِ محصول میں کمی کے بدلے میں آخری لمحے میں کی گئی پیشکش ناکام رہی، جنوبی افریقی صدر سیرل راما فوسا نے گزشتہ روز ٹرمپ سے فون پر بات کی تھی، اور دونوں ممالک کی تجارتی ٹیموں کے درمیان مزید مذاکرات ہوں گے۔

دوسری طرف، برازیل کے صدر لوئیز اناسیو لولا دا سلوا نے گزشتہ روز رائٹرز کو بتایا تھا کہ وہ ٹرمپ کو فون کال کے لیے کہہ کر خود کو شرمندہ نہیں کریں گے، اگرچہ انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت کابینہ کی سطح پر مذاکرات جاری رکھے گی تاکہ امریکا کو برازیل کی برآمدات پر عائد کردہ 50 فیصد شرح میں کمی پر آمادہ کیا جا سکے۔

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی بھی اسی طرح ڈٹے ہوئے نظر آئے، اور کہا کہ وہ ملک کے کسانوں کے مفادات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے، خواہ ٹرمپ نے بھارتی اشیاء پر 50 فیصد محصول عائد کر دیا ہو۔

ٹرمپ کے حکم میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ جو اشیا کسی تیسرے ملک کے ذریعے درآمد کی گئیں تاکہ بلند امریکی محصولات سے بچا جا سکے، ان پر 40 فیصد اضافی درآمدی ٹیکس عائد کیا جائے گا، تاہم ان اشیا کی شناخت اور اس قانون کے نفاذ سے متعلق تفصیلات حکومت کی جانب سے جاری نہیں کی گئیں۔

امریکی درآمدی ٹیکسز ایک کثیر جہتی محصولات کی پالیسی کا حصہ ہیں جس میں قومی سلامتی کی بنیاد پر مختلف شعبوں پر محصولات شامل ہیں، جیسے کہ سیمی کنڈکٹرز، دواسازی، گاڑیاں، اسٹیل، ایلومینیم، تانبا، لکڑی اور دیگر اشیاء۔

ٹرمپ نے گزشتہ روز کہا تھا کہ مائیکروچپس پر محصولات 100 فیصد تک پہنچ سکتے ہیں۔

چین ایک علیحدہ محصولات کی پالیسی کے تحت ہے اور اگر ٹرمپ سویڈن میں گزشتہ ہفتے ہونے والی بات چیت کے بعد پہلے سے طے شدہ مہلت میں توسیع کی منظوری نہ دیں تو 12 اگست کو اس پر اضافی محصولات لگائے جا سکتے ہیں۔

انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر چین روسی تیل کی خریداری جاری رکھتا ہے تو وہ اس پر مزید محصولات عائد کر سکتے ہیں تاکہ ماسکو پر دباؤ ڈال کر یوکرین میں جنگ ختم کرائی جا سکے۔

ٹرمپ نے اپنے درآمدی محصولات سے حاصل ہونے والی وفاقی آمدنی میں بڑے اضافے کا دعویٰ کیا ہے، جبکہ امریکی وزیر خزانہ اسکاٹ بیسنٹ نے کہا ہے کہ محصولات سے حاصل ہونے والی سالانہ آمدنی 300 ارب ڈالر سے تجاوز کر سکتی ہے۔

اٹلانٹک انسٹیٹیوٹ کے مطابق اس اقدام سے امریکی اوسط درآمدی محصول کی شرح تقریباً 20 فیصد تک پہنچ جائے گی، جو ایک صدی کی بلند ترین سطح ہے اور جنوری میں ٹرمپ کے عہدہ سنبھالنے کے وقت یہ شرح صرف 2.5 فیصد تھی۔

امریکی محکمہ تجارت کے گزشتہ ہفتے جاری کردہ اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ جون میں محصولات کی وجہ سے امریکا میں قیمتیں بڑھنے لگی ہیں، جن میں گھریلو فرنیچر، پائیدار گھریلو سامان، تفریحی اشیاء اور گاڑیاں شامل ہیں۔

ٹرمپ کی محصولات کی پالیسی کے اخراجات مختلف بڑی کمپنیوں پر بڑھنے لگے ہیں، جن میں کیٹرپلر، میریاٹ، مولسن کورز اور یم برانڈز شامل ہیں۔

ٹويوٹا نے آج کہا کہ امریکا میں درآمد کی جانے والی گاڑیوں پر محصولات کی وجہ سے اسے تقریباً 10 ارب ڈالر کا نقصان ہو سکتا ہے، جس کے باعث اس نے پورے سال کے منافع کے تخمینے میں 16 فیصد کمی کر دی ہے۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2025
کارٹون : 21 دسمبر 2025