خانہ جنگی نہیں دہشت گردی کا سامنا ہے، شام

جنیوا: شام نے ملک میں ڈھائی سال سے جاری بدامنی کو گیارہ ستمبر 2001 کو امریکا پر ہونے والے دہشت گرد حملے سے مشابہہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں غیر ملکی دہشت گردوں کی جانب سے حملوں کا سامنا ہے تاہم امریکا نے اس بیان کو سختی سے مسترد کر دیا ہے۔
نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 68ویں سالانہ اجلاس سے خطاب میں شام کے وزیر خارجہ ولید ال معلم نے کہا کہ 83 ملکوں سے زائد کے دہشت گرد عالمی تکفیری جہاد کی اپیل کے تحت ہماری قوم اور ہماری فوج کے قتل میں مصروف ہیں۔
انہوں نے کہا کہ " شام میں کوئی خانہ جنگی نہیں بلکہ یہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ہے جس کی نہ کوئی اقدار ہیں، نہ انصاف ، نہ مساوات اور نہ یہ کسی قسم کے حقوق یا قوانین کو تسلیم کرتا ہے۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ڈھائی سال سے جاری اس تنازع میں ایک لاکھ سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں، مارچ 201 میں حکومت نے جمہوریت کے حق میں کیے جانے والے مظاہروں کو کچلنے کی کوشش کی تھی جس کے بعد یہ باقاعدہ جنگ میں تبدیل ہو گئی اور اب 2 کروڑ سے زائد آبادی کے حامل ملک میں ایک کروڑ سے زائد کو امداد کی ضرورت ہے۔
معلم نے گیارہ ستمبر 2001 کے حملوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ "نیویارک کے عوام نے دہشت گردی کی تباہ کاریوں کے شاہد ہیں اور انتہا پسندی اور خونریزی کی جس آگ میں وہ جلے تھے، اسی کا آج شام کو بھی سامنا ہے"۔
انہوں نے کہا کہ شام اس وقت دہشت گردی کا شکار ہے اور اسی دہشت گردی کا شکار رہنے والے کچھ ملک کس طریقے سے دنیا کے تمام ملکوں میں دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کا دعویٰ کر سکتے ہیں جبکہ وہ اسی دہشت گردی کی ہماری ملک میں حمایت کرتے ہیں۔
معلم نے شام میں موجود شدت پسندوں کو اصلاح پسند باغی کہنے پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے ایک بڑا مذاق قرار دیا۔
انہوں نے 193 ملکی جنرل اسمبلی کو بتایا کہ " دہشت گردی کا مطلب صرف دہشت گردی ہے، ہم اس کی اعتدال پسند دہشت گردی اور انتہا پسند دہشت گردی کے طور پر درجہ بندی نہیں کر سکتے"۔
دوسری جانب اقوام متحدہ میں امریکا کے مشن نے شام کے وزیر خارجہ کے اس بیان پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے بیان کی کوئی ساکھ نہیں۔
امریکا کے ترجمان ایرن پیلٹن نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ شام کی حکومت اپنے ہی لوگوں کے سکولوں اور سپتالوں پر بمباری کرنے کے ساتھ کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ انہوں نے خود دہشت گردی کی حکمت عملی بنائی اور آج یہ اس کی مذمت کرتے ہیں۔
شام کے صدر بشار الاسد کی حکومت الزام عائد کرتی رہی ہے کہ ترکی، سعودی عرب، قطر، برطانیہ اور فرانس شام میں موجود باغی افواج کی مالی مدد کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں تربیت بھی دیتے رہے ہیں۔