سپریم کورٹ کے جج نے بحریہ ٹاؤن کی جائیدادوں کی نیلامی میں جلد بازی پر سوال اٹھا دیا
سپریم کورٹ کے ایک جج نے قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے زین ملک کے خلاف 6 ریفرنسز زیرِ التوا ہونے کے باوجود بحریہ ٹاؤن کی 6 جائیدادوں کی نیلامی میں جلد بازی پر سوال اٹھا دیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق احتساب عدالت نے ان ریفرنسز پر فیصلہ کرنا تھا کہ اگر ملزم کو مجرم قرار دیا جاتا ہے تو جائیداد ضبط کی جائے گی یا نہیں۔
جسٹس نعیم اختر افغان (جو 3 رکنی بینچ کے رکن ہیں) نے ریمارکس دیے کہ جب زین ملک اور نیب کے درمیان اگست 2020 میں طے پانے والے پلی بارگین (معاہدے) کو ختم کرنے کے لیے درخواستیں دائر کی گئیں، تو ملزم کے خلاف ریفرنسز دوبارہ ابتدائی مرحلے پر آ گئے۔
سپریم کورٹ کا یہ بینچ اسلام آباد ہائی کورٹ کے 4 اگست کے مختصر حکم کے خلاف اپیل کی سماعت کر رہا تھا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے مختصر حکم میں نیب کو 6 منجمد جائیدادوں کی نیلامی کی اجازت دی، جس کے بعد نیب نے ایک جائیداد فروخت کر دی اور 2 جائیدادوں کے لیے مشروط بولیاں حاصل کیں، جن کی مجموعی مالیت 2 ارب 27 کروڑ روپے تھی، تاہم باقی 3 جائیدادوں کی نیلامی مناسب بولیاں نہ ملنے پر روک دی گئی۔
13 اگست سے باقاعدہ سماعت
سپریم کورٹ نے فیصلہ کیا کہ بحریہ ٹاؤن کی اپیلیں 13 اگست سے کسی بھی دستیاب 3 رکنی بینچ کے سامنے باقاعدہ سماعت کے لیے مقرر کی جائیں گی۔
اپیل میں بحریہ ٹاؤن نے مؤقف اختیار کیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا 4 اگست کا حکم قانون اور حقائق دونوں کے لحاظ سے غلط ہے، کیونکہ اس میں ریکارڈ اور متعلقہ قانونی دفعات کی غلط تشریح اور عدم تشریح کی گئی ہے۔
یہ بھی کہا گیا کہ ہائی کورٹ کا 4 اگست کا حکم اور احتساب عدالت کا 23 مئی کا حکم دونوں قانونی دائرۂ اختیار سے باہر ہیں، اور فوجداری ضابطہ کار کی دفعہ 88 کی صریح خلاف ورزی ہیں، جو کسی تیسرے فریق کی جائیداد منجمد کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔
اپیل کنندہ نے مزید کہا کہ ہائی کورٹ اور احتساب عدالت یہ فرق کرنے میں ناکام رہیں کہ کون سے اثاثے ملزم کے ذاتی ہیں اور کون سے کسی الگ اور آزاد قانونی ادارے کے ہیں۔












لائیو ٹی وی