• KHI: Clear 25.4°C
  • LHR: Partly Cloudy 18.3°C
  • ISB: Partly Cloudy 13.1°C
  • KHI: Clear 25.4°C
  • LHR: Partly Cloudy 18.3°C
  • ISB: Partly Cloudy 13.1°C

مودی کے ٹرمپ اور چین کیساتھ کشیدہ تعلقات، بھارت عالمی تنہائی کا شکار، امریکی جریدے کی رپورٹ

شائع August 9, 2025
— فوٹو: ڈان نیوز
— فوٹو: ڈان نیوز

دنیا کی 2 بڑی طاقتوں کے ساتھ کشیدہ تعلقات کے بعد بھارت عالمی تنہائی کا شکار نظر آتا ہے۔

امریکی جریدے ’نیو یارک ٹائمز‘ نے رپورٹ کیا کہ 2014 میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے چین کے صدر شی جن پنگ کا ریڈ کارپٹ استقبال کیا لیکن اس دوران چینی فوجی، بھارتی سرحد پر ان کی فوجیوں کے ساتھ تصادم میں الجھ گئی، اس واقعے سے نہ صرف نریندر مودی کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا بلکہ انہیں بھارتی فوج کو سخت سردی والے علاقے میں جنگی حالت میں تیار رکھنا پڑا جس کا ان کی معیشت پر کافی گہرا اثر پڑا۔

سالوں بعد، بھارتی وزیراعظم نے امریکا کے ساتھ تعلقات میں گرم جوشی دکھائی، اپنی سیاسی ساکھ مزید داؤ پر لگا کر اس تعلق کو تیزی سے بدلنے کی کوشش کی، نریندر مودی نے اپنی پہلی مدتِ حکومت میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ اتنی دوستی بڑھائی کہ پروٹوکول توڑ کر ہیوسٹن میں ایک بھرے اسٹیڈیم میں ان کی دوبارہ انتخابی مہم میں شرکت کی۔

نریندر مودی کا اعتماد امریکا کے ساتھ بھارت کی بڑھتی قربت پر اس وقت مزید بڑھا، جب سابق بائیڈن انتظامیہ نے اس جماعتی اقدام کو نظر انداز کرتے ہوئے تعلقات کو وسعت دینا جاری رکھا، کیونکہ بھارت چین کے خلاف ایک مضبوط اتحادی سمجھا جاتا ہے۔

مودی نے گزشتہ برس امریکی کانگریس کے مشترکہ اجلاس میں ’اے آئی‘ سے امریکا اور بھارت کو تشبیہ دی۔

پھر آیا صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا وہ عوامی اقدام جس نے نریندر مودی کو ذلت سے دوچار کر دیا، صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت کو روسی تیل کی خریداری کا حوالہ دیتے ہوئے 50 فیصد کا بھاری ٹیرف لگا دیا اور بھارتی معیشت کو مردہ قرار دیا، اس کے علاوہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس سال کے اوائل میں پاک۔بھارت تنازع حل کرنےکی کوشش کے دوران پاکستانی قیادت کو برابری کی حیثیت دے کر بھارتیوں کو اور برہم کر دیا۔

اس سب نے بھارت کو ایک ایسے صورتحال میں ڈال دیا، جہاں اسے اپنی طاقت کی حدوں پر غور کرنا پڑ رہا ہے، باوجود اس کے کہ وہ ایک وسیع اور بڑھتی ہوئی معیشت رکھتا ہے، مودی نے اس ہفتے اعتراف کیا کہ تجارتی تنازع پر انہیں ذاتی سیاسی قیمت ادا کرنی پڑ سکتی ہے۔

بیجنگ کے ساتھ تعلقات کو دوبارہ بہتر کرنے کی کوششوں میں اضافہ ہوا، اور مودی گزشتہ 7 برسوں میں پہلی بار رواں ماہ کے آخر میں چین کا دورہ کرنے والے ہیں، مگر تعلقات اب بھی سرحدی جھڑپ اور چین کی جانب سے حالیہ دنوں میں پاکستان کی عسکری کشیدگی میں حمایت کی وجہ سے کشیدہ ہیں۔

چین، اپنی طرف سے نئی دہلی کی ان کوششوں پر محتاط ہے جو وہ چین کا متبادل مینوفیکچرنگ حب بنانے کے لیے کر رہا ہے۔

نریندر مودی ان دنوں فون پر بھی کافی سرگرم ہیں، انہوں نے برازیل کے صدر لولا ڈا سلوا سے بات کی، جو خود ٹرمپ کے ساتھ ایک مشکل تنازع میں پھنسے ہوئے ہیں، بھارتی وزیراعظم نے روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن سے بھی گفتگو کی اور کہا کہ دونوں فریقین نے بھارت-روس خصوصی اور مراعات یافتہ اسٹریٹجک شراکت داری کو مزید گہرا کرنے کا عزم کیا۔

روس کی ایک مستحکم شراکت دار کے طور پر حیثیت کو بھارت میں حکام بڑھا چڑھا کر بیان کر رہے ہیں، مودی کے قومی سلامتی کے مشیر اس ہفتے ماسکو میں تھے تاکہ صدر پیوٹن کے نئی دہلی کے دورے کی معاملات طے کیے جا سکیں۔

مودی نے ایکس پر اپنے رابطےکے بعد کہا کہ میں اس سال کے آخر میں روسی صدر پیوٹن کی بھارت میں میزبانی کرنے کا منتظر ہوں۔

مگر اس دوڑ دھوپ اور ضد سے ہٹ کر بھارت کی یہ خواہش کہ وہ ایک معاشی اور سفارتی طاقت کے طور پر اپنے عروج کو مستحکم کرے، اچانک غیر یقینی صورتحال سے ماند پڑتی دکھائی دیتی ہے۔

بھارتی حکام اور ماہرین میں یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ ملک کو اپنی طویل آزمودہ اسٹریٹجک خود مختاری کی پالیسی پر واپس جانا ہوگا۔

بیجنگ اور واشنگٹن میں بھارت کی سابق سفیر نیروپما راؤ نےکہا کہ ٹرمپ کے سخت اقدامات نے انتہائی اہم شراکت داری کی اسٹریٹجک منطق کو تہ و بالا کر دیا ہے، جو 2 دہائیوں سے زیادہ عرصے میں بڑی محنت سے پروان چڑھائی گئی تھی، نئی دہلی کو اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے انتہائی عملی اسٹریٹجک ایڈجسٹمنٹس کرنا ہوں گی۔

اس بات کا بھی کوئی اشارہ نہیں ہے کہ نئی دہلی اور واشنگٹن کے درمیان سرکاری سطح پر بات چیت مکمل طور پر ختم ہو گئی ہے۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ اعلان کہ اضافی 25 فیصد ٹیرف، جو بھارت کے روس کے ساتھ تجارتی تعلقات کی وجہ سے بطور سزا لگایا گیا ہے، اس مہینے کے آخر میں نافذ ہو جائے گا، اس بات کی علامت ہو سکتا ہے کہ یہ ایک سودے بازی کا ہتھکنڈہ ہے تاکہ ایک بہتر تجارتی معاہدہ حاصل کیا جا سکے، اور ساتھ ہی روس پر یوکرین میں جنگ بندی کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جا سکے۔

اس ہفتے ٹرمپ کے بھاری ٹیرف کے اعلان کے بعد مودی نے ایک جلسے سے خطاب میں کہا تھا کہ بھارت کبھی اپنے کسانوں، ماہی گیروں کے مفاد پر سمجھوتہ نہیں کرے گا، مجھے معلوم ہے کہ مجھے ذاتی طور پر بھاری قیمت چکانی پڑے گی، اور میں اس کے لیے تیار ہوں۔

درحقیقت، یہ تعلقات اس سے پہلے ہی بگڑنا شروع ہو گئے تھے، جب ٹرمپ نے روسی تیل پر توجہ مرکوز کی، حکام اور تجزیہ کاروں کے مطابق تعلقات کی خرابی کا تعلق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ایک ذاتی ناراضگی سے ہے۔

رواں برس مئی میں پاک-بھارت کشیدگی جب سرحد پار جھڑپوں میں بدلی تو صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا تھا کہ انہوں نے دونوں فریقوں پر دباؤ ڈال کر جنگ بندی کرائی۔

جہاں پاکستانی حکام نے اس کا خیر مقدم کیا اور بعد میں کہا کہ انہوں نے ٹرمپ کا نام نوبل امن انعام کے لیے تجویز کیا ہے وہیں بھارتی حکام نے امریکی صدر کے دعوے کی تردید کر دی تھی، انہوں نے سختی سے ٹرمپ کے مؤقف کے خلاف مؤقف اپنایا، جسے وہ درجنوں بار دہرا چکے ہیں اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ مودی ایک طاقتور لیڈر ہیں جنہوں نے اپنی عسکری طاقت سے پاکستان کو جنگ بندی کی درخواست کرنے پر مجبور کیا تھا۔

سابق بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ کے مشیر سنجایا بارو نےکہا کہ ہمارے پاس اب ایک ایسا امریکی صدر ہے جو انتہائی انا پرست ہے اور ذاتی اندازِ قیادت رکھتا ہے، اور ایک بھارتی وزیرِاعظم بھی ہے جو اسی طرح انا پرست اور ذاتی اندازِ قیادت رکھنے والا ہے۔

جب آپ کے پاس2 ایسے رہنما ہوں جو بنیادی طور پر ملکوں کے درمیان تعلق کو افراد کے درمیان تعلق میں بدل دیں، تو میرا خیال ہے کہ یہ وہ قیمت ہے جو ہم شاید ادا کر رہے ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 15 دسمبر 2025
کارٹون : 14 دسمبر 2025