• KHI: Partly Cloudy 21.9°C
  • LHR: Partly Cloudy 16.2°C
  • ISB: Partly Cloudy 14.6°C
  • KHI: Partly Cloudy 21.9°C
  • LHR: Partly Cloudy 16.2°C
  • ISB: Partly Cloudy 14.6°C

سپریم کورٹ 12 اگست کو عمران خان کی ضمانت سے متعلق اپیلوں کی سماعت کرے گی

شائع August 10, 2025
لاہور ہائیکورٹ نے عمران خان کی 9 مئی کے مقدمات میں ضمانت کی درخواست مسترد کی تھی۔
—فائل فوٹو: ڈان نیوز
لاہور ہائیکورٹ نے عمران خان کی 9 مئی کے مقدمات میں ضمانت کی درخواست مسترد کی تھی۔ —فائل فوٹو: ڈان نیوز

سپریم کورٹ 12 اگست کو سابق وزیرِاعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان کی لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے 9 مئی کے پر تشدد واقعات سے متعلق مقدمات میں ضمانت مسترد کیے جانے کے فیصلے کے خلاف دائر اپیلوں کی سماعت کرے گی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان (سی جے پی) یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں جسٹس محمد شفیع صدیقی اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل 3 رکنی بینچ منگل کو اس معاملے کی سماعت کرے گا۔

سپریم کورٹ نے اس سے قبل کارروائی اس لیے ملتوی کر دی تھی، کیوں کہ سابق وزیرِاعظم کے سینئر وکیل سلمان صفدر دستیاب نہیں تھے۔

اپیلوں میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ 24 جون کو لاہور ہائی کورٹ نے عمران خان کو 9 مئی کے واقعات سے متعلق 8 مقدمات میں بعد از گرفتاری ضمانت دینے سے انکار کر دیا تھا۔

ان مقدمات میں لبرٹی چوک پر عسکری ٹاور پر حملہ، ماڈل ٹاؤن میں مسلم لیگ (ن) کے دفاتر پر حملہ، شادمان تھانے پر حملہ، لاہور کور کمانڈر کی رہائش گاہ کے قریب پولیس گاڑیوں کو جلانا اور شیرپاؤ پل پر تشدد شامل ہیں۔

اپیل میں کہا گیا کہ عمران خان نے ان مقدمات میں 27 نومبر 2024 کو انسدادِ دہشت گردی کی عدالت سے ضمانت مسترد ہونے کے بعد لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

عمران خان نے مؤقف اختیار کیا کہ ان پر 9 مئی کو تشدد کی سازش اور اس میں معاونت کا الزام ہے، حالاں کہ مبینہ واقعے کے وقت وہ قومی احتساب بیورو (نیب) کی حراست میں تھے، لہٰذا ان کا ملوث ہونا ناممکن تھا۔

اپیل میں یاد دہانی کرائی گئی کہ سپریم کورٹ پہلے ہی قرار دے چکی ہے کہ وہ ملزم جو جائے وقوعہ پر موجود نہ ہو، اس کا کیس اصل ملزم کی نسبت کمزور قانونی بنیاد رکھتا ہے۔

اپیل میں کہا گیا کہ پی ٹی آئی بانی کو 2022 میں وزارتِ عظمیٰ سے ہٹائے جانے کے بعد سے ’سیاسی انتقام کی بے مثال مہم‘ کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

سپریم کورٹ کو بتایا گیا کہ یہ مقدمات ریاست اور پولیس کی ایک اور کوشش ہیں کہ انہیں ایک فوجداری معاملے میں ملوث کیا جائے، جو محض مبہم اور غیر مصدقہ الزامات پر مبنی ہیں، کیوں کہ استغاثہ کے پاس کوئی قابلِ یقین ثبوت موجود نہیں ہے جو عمران خان کو مبینہ جرم سے جوڑ سکے۔

اپیل میں کہا گیا کہ عمران خان کی غیر قانونی گرفتاری 9 مئی 2023 کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے سے عمل میں آئی، جس کے بعد لاہور اور اسلام آباد میں متعدد مقدمات درج کیے گئے، ان شکایات میں کسی قسم کے مخصوص الزامات یا مبینہ سازش کی تفصیلات موجود نہیں تھیں۔

بعد ازاں پولیس اہلکاروں کے اضافی بیانات شامل کیے گئے تاکہ عمران خان کو ملوث کیا جا سکے، اپیل میں سوال اٹھایا گیا کہ اگر پولیس کو مبینہ طور پر 7 مئی سے ہی اس سازش کا علم تھا تو انہوں نے حملوں کو روکنے کے لیے کوئی کارروائی کیوں نہیں کی؟ یہ بات انتہائی غیر منطقی ہے اور کارروائی کی ’بدنیتی اور سیاسی محرکات‘ کو مزید واضح کرتی ہے۔

اپیلوں میں مزید کہا گیا کہ عمران خان کو حکمتِ عملی کے تحت اور سیاسی بنیادوں پر ان مقدمات میں ملوث کیا گیا تاکہ ان کی قید کو طول دیا جائے، انہیں ہراساں کیا جائے اور ان کی ساکھ کو نقصان پہنچایا جائے۔

اپیل میں مؤقف اپنایا گیا کہ 9 مئی کے واقعات سے متعلق مقدمات میں ان کی گرفتاری کبھی بھی حقیقی طور پر ضروری نہیں تھی، انسدادِ دہشت گردی کی عدالت سے ضمانت مسترد ہونے کے بعد بھی پولیس نے 5 ماہ تک کوئی کارروائی نہیں کی، حالاں کہ انہیں عمران خان کی موجودگی کا علم تھا کہ وہ اڈیالہ جیل میں ہیں۔

اپیل کے مطابق اس عدم دلچسپی سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ گرفتاری مقدمے کی میرٹ کی بنیاد پر نہیں بلکہ دباؤ ڈالنے کے لیے تھی، جو بعد از گرفتاری ضمانت دینے کو مزید جواز فراہم کرتی ہے۔

مزید کہا گیا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کا ضمانت مسترد کرنے کا فیصلہ گھڑی ہوئی اور جعلی شہادت پر مبنی تھا، جو تاخیر سے ریکارڈ کرائے گئے پولیس اہلکاروں کے متنازع اور ناقابلِ اعتبار بیانات پر مشتمل تھی، جن میں تاخیر کی کوئی معقول وجہ پیش نہیں کی گئی۔

اپیل میں کہا گیا کہ لاہور ہائی کورٹ نے یہ بھی نظر انداز کر دیا کہ استغاثہ مسلسل اپنا مؤقف بدل رہا ہے، ہر نیا بیانیہ اس وقت لایا گیا جب پچھلا بیانیہ عدالت میں ناکام ہوا، جس سے مقدمہ مشکوک ہو جاتا ہے اور مزید تفتیش کا مستحق بنتا ہے، یہ تضادات اور بعد ازاں شامل کیے گئے نکات اس کیس کو ضابطہ فوجداری کی دفعہ 497(2) کے تحت ضمانت کا حق دار بناتے ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 18 دسمبر 2025
کارٹون : 17 دسمبر 2025