قبائلی اضلاع میں دہشتگردوں کی ڈرون کارروائیاں، ’شہری خوف کے سائے تلے جی رہے ہیں‘
جنگوں میں ڈرون کا استعمال اب کوئی نئی بات نہیں رہی۔ یوکرین کے جنگی محاذ سے لے کر مئی میں پاک-بھارت مختصر تصادم تک، بغیر پائلٹ کے چلنے والا فضائی نظام تنازعات کا مستقل حصہ رہا ہے۔
ڈرونز جو کبھی ریاست کی ملکیت میں آنے والے ہتھیاروں کے طور پر محدود تھے، اب یہ غیر ریاستی کرداروں کے آلہ کار بھی بن چکے ہیں۔ یہ تبدیلی بہرحال بتدریج آئی ہے لیکن یہ دانستہ ہے کیونکہ عسکریت پسند گروہ کمرشل سطح پر دستیاب ذرائع سے موافق ہورہے ہیں یا وہ یہ سمجھ چکے ہیں کہ اپنی حکمت عملی کو بہتر بنانے کے لیے انہیں نظام میں کیا ضروری تبدیلیاں لے کر آنی ہیں۔
عالمی سطح پر آنے والی اس تبدیلی کی بازگشت پاکستان کے قبائلی اضلاع میں ملی کہ جہاں اسلام پرست عسکریت پسندوں نے کبھی کبھی تجربات کرنے سے بالاتر ہوکر اب زیادہ مربوط اور مستقل ڈرون کارروائیاں شروع کردی ہیں۔ یہ تبدیلی محض تکنیکی نہیں۔ یہ ایک سیاسی اثر رکھتی ہے جو مقامی آبادی اور ریاست کے لیے اشارہ ہے کہ عسکریت پسند اب رسمی ریاستی اداروں کی زیرِ استعمال جدید ٹیکنالوجی کو بروئے کار لانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
پاکستان کی سیکیورٹی فورسز پہلے ہی نگرانی، جاسوسی اور اہداف کا درست تعین کرنے کے لیے ڈرونز کا استعمال کرتی ہیں۔ لیکن اب انتہاپسندوں کے پاس بھی اسی طرح کی ٹیکنالوجی کی موجودگی نے جنگی محاذ کے توازن کو بگاڑ دیا ہے۔
تنازعات کا شکار علاقوں کے آسمان ابہام کا شکار ہیں جہاں اب فضا میں اڑنے والا ڈرون دونوں فریقین میں سے کسی کا بھی ہوسکتا ہے۔ اس الجھن سے آپریشنز کی منصوبہ بندی کرنا مشکل ہوجاتا ہے جبکہ نفسیاتی طور پر بے یقینی کی صورت حال پیدا ہوتی ہے۔
مقامی رہائشیوں کے لیے ڈرونز کی بڑھتی ہوئی موجودگی پریشان کُن ہے۔ بہت سے لوگ بےیقینی کا شکار ہوتے ہیں کہ انہوں نے جس مشین کے اڑنے کی آواز سنی ہے، وہ ریاست کا ہے یا عسکریت پسندوں کا؟ یہ صورت حال، انہیں تحفظ فراہم کرنے کے حوالے سے ریاست پر ان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچاتی ہے۔
رہائشیوں میں یہ خوف حقیقتاً پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے کاشتکار کھیتوں میں کام کرنے دیر سے جاتے ہیں، دکاندار قبل ازوقت اپنی دکانوں کے شٹرز گرا دیتے ہیں جبکہ لوگ دیہاتوں کے درمیان نقل و حمل سے گریز کررہے ہیں۔ سروں پر مسلسل کسی مشین کے اڑنے کی آوازوں نے ان پر نفسیاتی اثرات مرتب کیے ہیں جس سے وہ اپنی جانوں کو خطرے میں محسوس کرتے ہیں حالانکہ کوئی حملہ بھی نہیں ہوتا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان حالات نے برادریوں اور ریاست کے درمیان دوریوں کو مزید بڑھا دیا ہے۔
گزشتہ چند ماہ میں خیبرپختونخوا میں عسکریت پسند حملوں میں شدت دیکھنے میں آئی ہے۔ مقامی مانیٹرنگ گروپس کے مطابق صرف جولائی کے مہینے میں ہی صوبے بھر میں 28 دہشتگردانہ حملے ہوئے جن میں سے کئی ہائی پروفائل حملے تھے۔ بنوں کا میریان تھانہ بار بار فضائی حملوں کی زد میں آیا۔
سب سے زیادہ اموات اورکزئی حملے میں ہوئیں جن میں 8 نیم فوجی اہلکار شہید ہوئے۔ یہ اس لیے بھی اہم ہے کیونکہ طویل عرصے سے جنوبی اضلاع کی نسبت اورکزئی شدت پسندی سے پاک اضلاع میں شمار کیا جاتا تھا۔ تاہم یہ تاثر اب ختم ہورہا ہے کیونکہ عسکریت پسندوں کا اثر و رسوخ شمالی اضلاع کی جانب پھیل رہا ہے۔
جنوبی اضلاع پہلے ہی تناؤ کی زد میں ہیں جہاں متعدد مقامات پر کرفیو نافذ کیا جاتا ہے۔ 24 جولائی کو ٹانک کے ذیلی ضلع جنڈولہ میں دن بھر لاک ڈاؤں نافذ رہا جبکہ خطرات کے پیشِ نظر زیریں جنوبی وزیرستان کی تحصیل برمل میں بھی اسی طرح کی پابندیاں لگائی گئیں۔
باجوڑ میں ایک اہم سیکیورٹی آپریشن سے پہلے تین روزہ کرفیو لگایا گیا تاکہ عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں کا صفایا کیا جاسکے۔ یہ اقدامات نہ صرف سلامتی کی نازک صورت حال کو ظاہر کرتے ہیں بلکہ خطرات پر قابو پانے کی ریاستی صلاحیت پر بھی دباؤ ڈالتے ہیں۔
فی الوقت پاکستان میں عسکریت پسندوں کی ڈورن وار فیئر اپنے ابتدائی مرحلے میں ہے۔ ان کے حملے ہمیشہ ہی درست اہداف پر نہیں ہوپاتے جبکہ وہ جو کچھ کررہے ہیں اسے ٹیکنالوجی کا تجربہ کرنے کے زمرے میں زیادہ لیا جاسکتا ہے۔ اس کے باوجود سیکیورٹی ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ واضح ہے کہ معاملہ کس طرف جارہا ہے۔ جیسے جیسے انتہا پسندوں کے اعتماد میں اضافہ ہوگا، ان کے حملوں کی تعداد اور شدت میں بھی اضافہ ہوگا جوکہ دیگر تنازعات میں پہلے ہی دیکھتے آرہے ہیں۔
ایسے گروہ ڈرونز کئی طریقوں سے استعمال کر سکتے ہیں۔ سستے کواڈ کاپٹرز جو خریدنا اور بنانا آسان ہیں، کا استعمال کرتے ہوئے دیسی ساختہ بارودی مواد کی ترسیل کرسکتے ہیں یا چھوٹی نوعیت کے گولہ بارود کو درست اہداف پر منتقل کرسکتے ہیں۔ ڈرون کو فوج کی چوکیوں کا پتا لگانے، گشت کے اوقات کو ٹریک کرنے، سیکیورٹی میں خامیاں تلاش کرنے اور اپنی کمانڈر ٹیمز کو لائیو ویڈیو بھیج کر بالواسطہ فائرنگ یا خودکش حملوں کے لیے اہداف کا تعین کرنے میں بھی مدد کرسکتے ہیں۔
ڈرون کا استعمال لاجسٹک مقاصد کے لیے بھی کیا جاتا ہے جیسے سم کارڈز، بیٹریاں، طبی سامان یا تکنیکی سامان کو ان علاقوں میں منتقل کرنا جہاں زمینی نقل و حرکت نسبتاً زیادہ پُرخطر ہوتی ہے۔ اپنے فعال کردار کے علاوہ ڈرون نفسیات کی جنگ میں بھی آلہ کار ہوتے ہیں۔ عسکریت پسند ڈرون سے بنائی گئیں ویڈیوز کو پروپیگنڈے کے طور پر استعمال کرتے ہیں تاکہ خود کو طاقتور دکھائیں اور لوگوں کو یہ محسوس ہو کہ حکومت کنٹرول کھو چکی ہے۔
ریاست کا ردعمل بھی اس ابھرتے ہوئے خطرے کے مطابق ہونے لگا ہے۔ جولائی کے اختتام پر خیبرپختونخوا پولیس نے بنوں میں ایک آپریشن کے دوران پہلی بار اینٹی ڈرون ٹیکنالوجی کا استعمال کیا۔ پشاور سے بھیجی گئی ایک اینٹی ڈرون بندوق نے کامیابی کے ساتھ دشمن کی UAV سرگرمیوں میں رکاوٹ ڈالی جس سے عسکریت پسندوں کو اپنی نقل و حمل ترک کرنا پڑی۔
حکام اب عسکریت پسندوں کے خلاف لڑائی کے حصے کے طور پر جنوبی اضلاع میں اس قسم کے آلات کو زیادہ وسیع پیمانے پر استعمال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور اسے انسدادِ عسکریت پسندی کا حصہ بنانا چاہتے ہیں۔ پولیس حکام اس امید کا اظہار کرتے ہیں کہ یہ صلاحیت تیز، زیادہ درست ردعمل کی اجازت دے گی اور عسکریت پسندوں کے لیے ڈرون کا مؤثر استعمال کرنا مشکل بنا دے گی۔
ہمیشہ یہ تعین کرنا آسان نہیں ہوتا کہ حملے کا ذمہ دار کون ہے۔ بنوں میں زیادہ تر واقعات کو حافظ گل بہادر گروپ سے منسلک کیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود کئی مقدمات میں ذمہ داران کی شناخت ہی نہیں ہوسکی۔ سیکیورٹی فورسز نے عام طور پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) پر الزام عائد کیا ہے لیکن اس گروہ نے اپنے باضابطہ بیانات میں اپنے آپریشنل طور پر ملوث ہونے کے الزامات کی تردید کی ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ وہ ابھی ڈرون ٹیکنالوجی حاصل کرنے کے مرحلے میں ہیں۔
سویڈن کے محقق عبدالسعید زیادہ تفصیلی نقطہ پیش کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ 2024ء سے ڈرون حملوں کی فوٹیجز ٹی ٹی پی کے غیررسمی میڈیا چینلز کے ذریعے خاموشی سے گردش کرنے لگی ہیں جبکہ گروہ باضابطہ اعتراف کرنے سے گریز کیا۔
2025ء میں یہ تبدیل ہوا کہ جب ٹی ٹی پی کے ایک دھڑے ’اتحاد‘ نے کھلے عام ڈرون حملوں کا دعویٰ کرنا شروع کیا۔ اس اقدام پر ٹیلی گرام پر ٹی ٹی پی کی حامی آوازوں کی طرف سے تنقید کی گئی جنہوں نے دلیل دی کہ حملوں کا کھلے عام اعتراف کرنا حکمت عملی کے اعتبار سے درست نہیں تھا۔ اس کے باوجود اتحاد اپنے دعوے پر مصر رہا اور بعد میں ٹی ٹی پی کے اہم رہنماؤں نے بھی اس کا اعتراف کرنا شروع کردیا جس سے پروپیگنڈے کے انداز میں تبدیلی آئی۔
عسکریت پسند جو پہلے آزمائش کررہے تھے، اب کھلے عام ڈرون حملوں کا اعتراف کرنے لگے جو نشاندہی کرتا ہے کہ یہ نظام پاکستان کی داخلی سلامتی کے منظرنامے میں تیزی سے خطرات میں اضافہ کررہا ہے۔ ملکی سلامتی کے مسائل پہلے ہی پیچیدہ اور کثیرجہتی ہیں اور ڈرون ٹیکنالوجی کی شمولیت سے پیچیدگی میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
اگرچہ خیبرپختونخوا کے قبائلی اضلاع میں ان ڈرون ٹیکنالوجی کا زیادہ استعمال کیا جارہا ہے لیکن یہ شواہد بھی موجود ہیں جو اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ بلوچ باغیوں نے بھی اس ٹیکنالوجی کو اپنا لیا ہے جس کے اشارے ہمیں کچھ انتہا پسند حملوں اور ویڈیو کلپس سے ملتے ہیں۔
اگر اس معاملے کو یونہی چھوڑ دیا گیا تو ڈرون کا زائد استعمال ریاست اور مقامی آبادی کے درمیان بداعتمادی کو مزید سنگین رخ دے سکتا ہے جبکہ نازک اضلاع کو مزید غیرمستحکم کر سکتا ہے۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔













لائیو ٹی وی