پلاسٹک آلودگی محض ماحولیاتی مسئلہ نہیں، یہ انصاف، مساوات، خودمختاری کا معاملہ ہے، مصدق ملک

شائع August 12, 2025
— فوٹو: پی ٹی وی
— فوٹو: پی ٹی وی

وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی و ماحولیاتی ہم آہنگی ڈاکٹر مصدق ملک نے کہا ہے کہ پلاسٹک آلودگی محض ماحولیاتی مسئلہ نہیں بلکہ یہ انصاف، مساوات اور خودمختاری کا معاملہ ہے جب کہ پاکستان اس جدوجہد میں قیادت کے لیے تیار ہے تاکہ ہماری آئندہ نسلیں دریاؤں، زمین اور فضاؤں کو زہریلے فضلے سے پاک ورثے میں پائیں۔

وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی و ماحولیاتی ہم آہنگی ڈاکٹر مصدق ملک نے جنیوا میں منعقدہ بین الوزارتی غیر رسمی مکالمہ برائے ’سرکلر اکانومی میں سرمایہ کاری کے مواقع، عالمی پلاسٹک معاہدے کے تناظر میں‘ سے خطاب کرتے ہوئے پلاسٹک آلودگی کے بڑھتے ہوئے عالمی بحران کے تدارک اور پاکستان کے ماحولیاتی، معاشی اور عوامی صحت کے تحفظ کے لیے جامع اور منصفانہ اصلاحات پر زور دیا۔

اپنے خطاب میں ڈاکٹر مصدق ملک نے عالمی سطح پر پلاسٹک کے استعمال میں شدید عدم توازن کو اجاگر کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ترقی یافتہ ممالک نہ صرف پلاسٹک کی کھپت میں کئی گنا آگے ہیں بلکہ کم قیمت، آلودہ اور ناقابلِ ری سائیکل پلاسٹک کچرے کو ’ری سائیکل ایبل‘ کے لبادے میں ترقی پذیر ممالک، بشمول پاکستان، برآمد کر دیتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جدید ری سائیکلنگ سہولیات کی کمی کے باعث یہ فضلہ اکثر کھلے لینڈفلز میں پھینکا جاتا ہے، جلایا جاتا ہے یا دریاؤں اور سمندروں میں شامل ہو کر فضا، مٹی اور پانی کو آلودہ کرتا ہے، جس کے اثرات براہِ راست انسانی صحت پر پڑتے ہیں۔

وفاقی وزیر نے بتایا کہ اعداد و شمار کے مطابق مغربی یورپ میں فی کس سالانہ پلاسٹک کھپت 150 کلوگرام تک پہنچ چکی ہے، جب کہ پاکستان میں یہ صرف 7 کلوگرام فی کس ہے۔

مزید کہا کہ بھارت اور بنگلہ دیش میں یہ شرح بالترتیب 8 اور 6 کلوگرام ہے، اور نائیجیریا، ایتھوپیا اور کینیا میں یہ 5 سے 6 کلوگرام کے درمیان ہے، یہ ممالک عالمی پلاسٹک کھپت میں نہ ہونے کے برابر حصہ ڈالنے کے باوجود ماحولیاتی بوجھ کا سب سے زیادہ سامنا کر رہے ہیں۔

ڈاکٹر مصدق ملک نے کہا کہ ہمارے عوام ایک ایسے مسئلے کی قیمت ادا کر رہے ہیں جو ہم نے پیدا نہیں کیا، پلاسٹک بحران کو گلوبل ساؤتھ کے لیے ایک اور ناانصافی بننے نہیں دیں گے۔

وفاقی وزیر نے عالمی پلاسٹک معاہدے کے تحت دو اہم اقدامات کی تجویز پیش کی۔

1. ایکسٹینڈڈ کنزیومر ریسپانسبلٹی (ای سی آر) فریم ورک:

جس کے تحت پلاسٹک آلودگی کی ذمہ داری کو صرف فضلے کے ضائع کرنے پر نہیں بلکہ کھپت کی مقدار سے منسلک کیا جائے، ایسے ممالک جہاں فی کس سالانہ کھپت 100 کلوگرام سے زائد ہو، انہیں پلاسٹک فنڈ میں مالی تعاون فراہم کرنا ہوگا تاکہ ترقی پذیر ممالک میں جدید ری سائیکلنگ پلانٹس، چھانٹنے کے مراکز اور تکنیکی سہولیات قائم کی جا سکیں۔

2. گلوبل پلاسٹک کریڈٹ مارکیٹ:

جس میں کاربن کریڈٹس کی طرز پر، ایسے ترقی پذیر ممالک جو پلاسٹک کی ری سائیکلنگ، کچرے کے انتظام اور آلودگی کی روک تھام میں قابلِ پیمائش پیش رفت کریں، انہیں پلاسٹک کریڈٹس سے نوازا جائے، جب کہ ترقی یافتہ ممالک ان کریڈٹس کو خرید کر اپنے ماحولیاتی اہداف پورے کر سکیں گے، اور حاصل شدہ رقوم جدید ری سائیکلنگ نظام، فضلہ اکٹھا کرنے کے ڈھانچے اور غیر رسمی شعبے میں کام کرنے والے مزدوروں کی فلاح و بحالی پر خرچ ہوں گی۔

ان کا کہنا تھا کہ ان اقدامات کے ذریعے پاکستان نہ صرف اپنے عوام کے صاف اور صحت مند ماحول کے حق کا دفاع کر رہا ہے بلکہ ایک زیادہ منصفانہ اور ذمہ دار عالمی معیشت کی تشکیل میں قائدانہ کردار ادا کر رہا ہے، جہاں کوئی ملک پلاسٹک فضلے کا ڈمپنگ گراؤنڈ نہ بنے۔

ڈاکٹر مصدق ملک نے اپنے خطاب کا اختتام کرتے ہوئے کہا کہ پلاسٹک آلودگی محض ماحولیاتی مسئلہ نہیں بلکہ یہ انصاف، مساوات اور خودمختاری کا معاملہ ہے، پاکستان اس جدوجہد میں قیادت کے لیے تیار ہے تاکہ ہماری آئندہ نسلیں دریاؤں، زمین اور فضاؤں کو زہریلے فضلے سے پاک ورثے میں پائیں۔

موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے لیے ڈان میڈیا گروپ کی مہم بریتھ پاکستان کا حصہ بنیں۔

کارٹون

کارٹون : 5 دسمبر 2025
کارٹون : 4 دسمبر 2025