سندھ نے پہلے بی ٹو بی گرین پاور منصوبے کیلئے جھمپیر میں 300 ایکڑ زمین مختص کردی
سندھ حکومت نے جھمپیر میں 300 ایکڑ زمین مورو پاور کمپنی (ایم پی سی) کو الاٹ کر دی ہے تاکہ وہاں 100 میگاواٹ کا ہائبرڈ ونڈ اور سولر پروجیکٹ قائم کیا جا سکے، یہ منصوبہ صوبے کے اپنے ریگولیٹر کے تحت بجلی کا پہلا بزنس ٹو بزنس (بی ٹو بی) وینچر ہوگا۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق حکام کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ سندھ الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (سیپرا) کے تحت مکمل کیا جائے گا، جس کے ذریعے ایم پی سی نوری آباد کی صنعتوں کو براہِ راست بجلی فراہم کرے گی، اور اس کے لیے سندھ ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی (ایس ٹی ڈی سی) کو استعمال کیا جائے گا۔
اس منصوبے کا مقصد صنعتوں کو قابلِ اعتماد اور سستی متبادل توانائی فراہم کرنا ہے، جس سے اخراجات کم ہوں گے اور صوبے کی صنعتی بنیاد مستحکم ہوگی۔
سندھ پاکستان کا واحد صوبہ ہے جس کا اپنا پاور ریگولیٹر موجود ہے، جو وفاقی حکومت سے آزاد ہو کر ٹیرف مقرر کرنے اور پیداوار، ترسیل اور تقسیم کی نگرانی کرنے کا اختیار رکھتا ہے، اس وجہ سے جھمپیر کا یہ منصوبہ ملک میں غیرمرکزی بجلی پیداوار کی طرف ایک انقلابی قدم تصور کیا جا رہا ہے۔
وزیر توانائی سید ناصر حسین شاہ نے کہا کہ صوبائی حکومت جھمپیر کے ونڈ کوریڈور کو بروئے کار لانے کے لیے پرعزم ہے، جہاں فی یونٹ محض 8 روپے کی کم ترین لاگت پر 50 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے، انہوں نے کہا کہ ’ہم اس قدرتی وسیلے سے فائدہ اٹھانے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں، جو سندھ میں صنعتی ترقی اور معاشی استحکام کا باعث بن سکتا ہے‘۔
ایم پی سی کے چیف ایگزیکٹو مصطفیٰ عبداللہ نے بتایا کہ کمپنی 65 میگاواٹ کے ونڈ ٹربائنز اور 35 میگاواٹ کے سولر پینلز لگائے گی، ہم پہلے ہی نوری آباد کی درجن بھر صنعتوں کے ساتھ 20 روپے فی کلو واٹ کے حساب سے بجلی فراہمی کا معاہدہ کر چکے ہیں اور پروجیکٹ فنانسنگ کے لیے الفلاح ایسٹ مینجمنٹ اور دیگر بینکوں سے بات کر رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایم پی سی پنجاب بینک، فیصل بینک اور جے ایس بینک کے ساتھ بات چیت کر رہی ہے تاکہ 80 فیصد قرض پر مبنی فنانسنگ حاصل کی جا سکے، جو پاکستان کے لیے عالمی بینک کے 7 ارب ڈالر کے گرین فنڈز کے تحت ممکن ہے۔ یہ سیپرا کے تحت پہلا منصوبہ ہوگا جو 2026 تک صنعتوں کو سستی بجلی فراہم کرے گا۔
ان کے مطابق ایس ٹی ڈی سی جھمپیر سائٹ کو صرف 20 کلومیٹر فاصلے پر موجود نوری آباد انڈسٹریل اسٹیٹ سے جوڑنے کے لیے ٹرانسمیشن لائنز تعمیر کرے گی، انہوں نے کہا کہ ’یہ اقدام نہ صرف صنعتی مسابقت کو بہتر بنائے گا بلکہ کم کاربن مستقبل کو بھی فروغ دے گا‘۔
جھمپیر کا ونڈ کوریڈور پہلے ہی 36 پاور پروڈیوسرز کو اپنی طرف متوجہ کر چکا ہے، جن کی مجموعی پیداواری صلاحیت 1845 میگاواٹ ہے, حکام کا خیال ہے کہ صوبائی حکومت کی متبادل توانائی کی جانب پیش رفت اربوں ڈالر کی مزید سرمایہ کاری کو کھینچ سکتی ہے اور روزگار کے مواقع پیدا کر سکتی ہے۔
ایم پی سی نے نشاندہی کی کہ چین، جرمنی اور بھارت جیسے ممالک نے ونڈ انرجی میں بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں، جہاں نصب شدہ صلاحیت بالترتیب 7لاکھ میگاواٹ، ایک لاکھ 20 ہزار میگاواٹ اور 50ہزار میگاواٹ تک پہنچ چکی ہے۔
پاکستان، حالانکہ سندھ اور بلوچستان میں مضبوط ونڈ کوریڈورز رکھتا ہے، لیکن اپنی صلاحیت کے استعمال کے ابتدائی مراحل میں ہے، ماہرین کا خیال ہے کہ صوبائی سطح پر چلنے والے منصوبے وفاقی رکاوٹوں کو نظرانداز کر کے پیش رفت کو تیز کر سکتے ہیں۔
مبصرین سندھ کے بی ٹو بی ماڈل کو دیگر صوبوں کے لیے بھی ایک ممکنہ نمونہ قرار دے رہے ہیں، خاص طور پر اس پس منظر میں کہ وفاقی سطح پر گردشی قرضوں اور گرڈ کی رکاوٹوں کے مسائل بار بار سامنے آتے ہیں۔
ایک سینیئر توانائی عہدیدار نے کہا کہ جھمپیر کا یہ منصوبہ سندھ کی توانائی کے منظرنامے میں ایک نیا موڑ ثابت ہو سکتا ہے، ’اپنے وسیع متبادل وسائل کے ساتھ سندھ پاکستان کی صاف توانائی کی منتقلی کی قیادت کر سکتا ہے، صنعتوں کو سستی بجلی فراہم کر کے ایسے منصوبے صنعتی ترقی اور معاشی استحکام کو دوام بخش سکتے ہیں‘۔
مصطفیٰ عبداللہ نے بھی اس رائے کی تائید کی اور کہا کہ یہ منصوبہ دکھائے گا کہ نجی سرمایہ کاری، بین الاقوامی گرین فنڈز اور صوبائی خودمختاری کس طرح مل کر پائیدار توانائی کے حل فراہم کر سکتے ہیں۔
صوبائی حکومت متبادل توانائی کے منصوبوں پر انحصار کر رہی ہے تاکہ مہنگے درآمدی ایندھن پر انحصار کم کیا جا سکے، کاربن کے اخراج میں کمی لائی جا سکے اور اپنی صنعتی ترقی کو وسعت دی جا سکے، اگر کامیاب ہوا تو جھمپیر کا یہ ہائبرڈ پلانٹ نہ صرف سندھ کے پاور سیکٹر کو بدل دے گا بلکہ ملک کے باقی حصوں کے لیے بھی ایک ماڈل ثابت ہو سکتا ہے۔













لائیو ٹی وی