• KHI: Clear 24.7°C
  • LHR: Partly Cloudy 15.4°C
  • ISB: Partly Cloudy 14.6°C
  • KHI: Clear 24.7°C
  • LHR: Partly Cloudy 15.4°C
  • ISB: Partly Cloudy 14.6°C

زیر حراست افراد کو مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنے کیلئے جامع نظام بنایا جائے گا، اٹارنی جنرل

شائع August 18, 2025
— فوٹو: سپریم کورٹ / ویب سائٹ
— فوٹو: سپریم کورٹ / ویب سائٹ

اٹارنی جنرل پاکستان منصور اعوان نے قومی عدالتی پالیسی سازی کمیٹی کو یقین دہانی کروائی ہے کہ زیر حراست افراد کو 24 گھنٹوں کے اندر مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنے کے لیے ایک جامع نظام بنا کر کمیٹی کے اگلے اجلاس کے سامنے رکھا جائے گا۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے جاری اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ قومی عدالتی پالیسی ساز کمیٹی کا 54واں اجلاس آج سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیف جسٹس آف پاکستان یحییٰ آفریدی کی زیر صدارت منعقد ہوا۔

اعلامیے کے مطابق اجلاس میں تمام ہائی کورٹس کے چیف جسٹس نے شرکت کی جبکہ اٹارنی جنرل برائے پاکستان نے خصوصی دعوت پر اجلاس میں شرکت کی۔

کمیٹی نے اہم پالیسی امور پر غور کیا اور اپنے 53ویں اجلاس میں کیے گئے فیصلوں پر عملدرآمد کا جائزہ لیا، کمیٹی نے متفقہ طور پر ادارہ جاتی صلاحیت کو مضبوط بنانے، انصاف تک رسائی کو تیز کرنے اور مؤثر انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے کے عزم کا اعادہ کیا۔

اعلامیے میں جبری گمشدگیوں کے مقدمات پر ادارہ جاتی ردعمل کے حوالے سے بتایا گیا کہ کمیٹی نے اس بات پر زور دیا کہ ایک جامع نظام وضع کیا جائے تاکہ کسی بھی زیر حراست شخص کو 24 گھنٹوں کے اندر مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا جا سکے، اٹارنی جنرل برائے پاکستان نے یقین دہانی کرائی کہ ایسا نظام تیار کر کے آئندہ اجلاس میں پیش کیا جائے گا، فورم نے اس حوالے سے اٹارنی جنرل کے اقدامات اور یقین دہانی کو سراہا۔

اعلامیے کے مطابق عدلیہ کی آزادی کے تحفظ کے حوالے سے کمیٹی نے ہائی کورٹس کی جانب سے مرتب کردہ ایس او پیز کو سراہا مگر اس بات پر زور دیا کہ ان میں شکایت کے اندراج سے لے کر حتمی کارروائی تک مرحلہ وار ٹائم لائنز شامل ہوں۔

اسی طرح فیصلہ کیا گیا کہ ہر قسم کے بیرونی دباؤ کے واقعات 24 گھنٹوں کے اندر رپورٹ ہوں گے اور ان پر کارروائی 14 دن میں مکمل ہوگی، مزید برآں شکایت کنندہ جج کی عزت کے فوری تحفظ کے اقدامات بھی شامل کیے جائیں، چیف جسٹس آف پاکستان کو براہ راست رپورٹنگ کا طریقہ کار بھی تجویز کیا گیا، ہائی کورٹس ان ایس او پیز کو نوٹیفائی کر کے ایل جے سی پی کے ساتھ شیئر کریں گی۔

اعلامیے میں مزید بتایا گیا کہ کمرشل مقدمات کے فریم ورک کو مضبوط بنانے کے حوالے سے کمیٹی نے ہائی کورٹس کی جانب سے کمرشل مقدمات کے فریم ورک میں نمایاں پیشرفت کو سراہا اور اس کو مؤثر عدالتی ڈھانچے کی تشکیل کی سمت اہم قدم قرار دیا۔

اس سلسلے میں طویل المدتی مقدمات اور حکمِ امتناع کے مسائل حل کرنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس کی سربراہی معزز جسٹس شفیع صدیقی، جج سپریم کورٹ کریں گے، دیگر اراکین میں جسٹس عابد عزیز شیخ (لاہور ہائی کورٹ)، جسٹس آغا فیصل (سندھ ہائی کورٹ)، جسٹس ارشد علی (پشاور ہائی کورٹ)، اٹارنی جنرل برائے پاکستان اور چیئرمین ایف بی آر شامل ہیں۔

اسی طرح کمیٹی نے مختلف نوعیت کے مقدمات کے لیے یکساں ٹائم لائنز مقرر کیں، جو ججز کی کارکردگی کے جائزے میں کلیدی حیثیت رکھیں گی، جن میں مندرجہ ذیل شامل ہیں:

  • زمین سے متعلق ڈیکلیئری سوٹ: 24 ماہ
  • وراثتی تنازعات: 12 ماہ
  • کرایہ داری مقدمات: 6 ماہ
  • خاندانی مقدمات (خلع، حق مہر، نان و نفقہ، سرپرستی): 6 ماہ
  • فوجداری مقدمات (قتل): 24 ماہ

اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ماڈل کریمنل ٹرائل کورٹس کے حوالے سے قومی عدالتی پالیسی ساز کمیٹی نے سندھ ہائی کورٹ اور پشاور ہائی کورٹ کی پیشرفت کو سراہا گیا اور کہا گیا کہ یہ اقدامات انصاف تک رسائی کو مزید مؤثر اور بروقت بنائیں گے۔

اسی طرح کمیٹی نے ہائی کورٹس کی پیشرفت کو تسلیم کیا اور قبل از سماعت مصالحت کی اہمیت پر زور دیا، اٹارنی جنرل برائے پاکستان نے یقین دلایا کہ آئندہ اجلاس میں وفاقی اور صوبائی سطح پر قانون سازی کی پیشرفت پر اپ ڈیٹ دی جائے گی۔

سپریم کورٹ کی جانب سے جاری اعلامیے میں مزید بتایا گیا کہ ضلعی عدلیہ کی کارکردگی کے جائزے، بھرتی کے معیار، ضلعی عدلیہ پالیسی فورم کے قیام، سروس شرائط میں مساوات اور بین الاقوامی مواقع تک رسائی پر امور پر غور کیا گیا، فیصلہ کیا گیا کہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کو بھی ان سفارشات کی تیاری کرنے والی کمیٹی میں شامل کیا جائے۔

اسی طرح کمیٹی نے پروفیشنل ایکسیلینس انڈیکس پر پیشرفت پر اطمینان کا اظہار کیا اور اسے عدالتی نظام کی بہتری کے لیے اہم آلہ قرار دیا۔

قومی عدالتی پالیسی سازی کمیٹی نے ہائی کورٹس اور ضلعی عدالتوں میں عوامی شکایات کے ازالے کے لیے آسان اور صارف دوست نظام قائم کرنے کی ہدایت کی گئی۔

ماڈل سول کورٹس کے معاملے پر لاہور ہائی کورٹ کی کوششوں کو سراہا گیا اور فیصلہ کیا گیا کہ پرانے سول مقدمات کو ترجیحی بنیادوں پر ماڈل سول کورٹس میں سنا جائے گا۔

اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ کمیٹی نے جیل اصلاحات پر غور کیا اور فیصلہ کیا کہ صوبائی ذیلی کمیٹیوں کی رپورٹس اور ایکشن پلان آئندہ اجلاس میں شیئر کیے جائیں گے تاکہ ایک قومی جیل پالیسی تیار کی جا سکے۔

سپریم کورٹ کی جانب سے جاری اعلامیے میں مزید بتایا گیا کہ مندرجہ ذیل دیگر اہم امور کے حوالے سے بھی فیصلہ کیا گیا۔

  • اپیل کے دوران سزا کی معطلی (سیکشن 426 ض ف ع)
  • خصوصی عدالتوں و ٹربیونلز کے جج صاحبان کی وطن واپسی
  • ہائی کورٹس میں آڈٹ افسران کی تعیناتی
  • منشیات کے مقدمات میں ضمانت کی درخواستیں ڈویژن بنچز سنیں گے
  • مقدمات کے اندراج پر بایومیٹرک تصدیق کو یقینی بنایا جائے گا

کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ آئندہ اجلاس باقاعدگی سے طے کیا جائے گا، اگلا اجلاس 17 اکتوبر 2025 کو ہوگا۔

کارٹون

کارٹون : 18 دسمبر 2025
کارٹون : 17 دسمبر 2025