کلاؤڈ برسٹ پر محکموں میں اختلاف: کیا ہم واقعی موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں؟
جیسے جیسے پاکستان میں موسمی واقعات زیادہ کثرت سے اور شدید ہوتے جا رہے ہیں، اس سے نہ صرف ملک کے ردعمل میں بلکہ ادارہ جاتی ہم آہنگی اور قابلِ اعتماد ڈیٹا کے فقدان کے حوالے سے بھی ایک پریشان کن صورت حال پیدا ہوئی ہے۔
خیبرپختونخوا میں حالیہ تباہ کن سیلاب جسے صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) نے بادل پھٹنے کی وجہ قرار دیا تھا، نے ایک بار پھر سرکاری اداروں کے درمیان رابطہ منقطع کردیا ہے کیونکہ پاکستان میٹرولوجیکل ڈیپارٹمنٹ (پی ایم ڈی) نے فوری طور پر اس دعوے کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسا کوئی موسمیاتی واقعہ پیش ہی نہیں آیا۔
اگرچہ ’کلاؤڈ برسٹ‘ اندرونِ و بیرونِ ملک شہ سرخیوں میں رہا لیکن گمان ہوا جیسے بادل پھٹنا قرار دینے کو ایک المناک واقعے کو بیان کرنے کا آسان طریقہ سمجھا گیا۔
موسمیاتی ماہرین نے ریاستی اداروں اور میڈیا کی جانب سے ’کلاؤڈ برسٹ‘ کی اصطلاح کے تصور اور بار بار استعمال کو چیلنج کیا ہے۔
پی ایم ڈی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ظہیر احمد بابر نے کہا کہ تکنیکی طور پر دیکھا جائے تو ملک میں بادل پھٹنے کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا جبکہ انہوں نے ملک کے شمالی علاقہ جات میں ہونے والی تباہی کی وجہ شدید بارشوں کو قرار دیا۔
’کلاؤٹ برسٹ‘ درحقیقت کیا ہے؟
ڈاکٹر ظہیر نے کہا، ’موسمیاتی اصطلاح کلاؤڈ برسٹ یا بادل پھٹنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کسی چھوٹے علاقے میں کم وقت میں کبھی اولے گرنے اور گرج چمک کے ساتھ ایک گھنٹے میں 100 ملی لیٹر سے زیادہ بارش ہو، جوکہ سیلاب کی صورت حال پیدا کرسکتا ہے‘۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق، بادل پھٹنے کی خصوصیت عام طور پر تقریباً 30 مربع کلومیٹر کے مقامی علاقے میں ایک گھنٹے کے اندر 100 ملی میٹر سے زیادہ بارش ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا، ’ہم کلاؤڈ برسٹ کا لفظ ایک وضاحتی اصطلاح کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں لیکن یہ بھاری بارش کو بیان کرنے کے لیے موزوں نہیں ہے۔ ہمیں یہ فیصلہ کرنے کے لیے متعدد عوامل کو دیکھنا ہوگا کہ آیا کوئی واقعہ محض شدید بارش کا نتیجہ تھا یا واقعی بادل پھٹا تھا‘۔
انہوں نے چکوال میں گزشتہ ماہ ہونے والی شدید بارش کی مثال دی کہ جب بادل پھٹنے کو بڑے پیمانے پر تباہی کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔
تاہم جب میٹ آفس نے چکوال میں رصد گاہوں کا ریکارڈ چیک کیا تو انہیں معلوم ہوا کہ میڈیا میں رپورٹ کے برخلاف کم بارش ریکارڈ ہوئی ہے اور کہا کہ اس تناظر میں ’کلاؤڈ برسٹ‘ کی اصطلاح کا استعمال غلط ہے۔
اس وقت یہ پی ڈی ایم اے پنجاب تھا جس نے اس واقعے کو اپنی ریڈنگ کی بنیاد پر ’بادل پھٹنے‘ کا نتیجہ قرار دیا تھا۔ تاہم انہوں نے بعد میں میٹ آفس کی جانب سے وضاحت جاری کرنے کے بعد اپنی غلطی کو تسلیم کیا۔
ظہیر احمد نے کہا، ’یہی مسئلہ بھارت و دیگر ممالک میں بھی پیش آیا جو اس اصطلاح کو بھاری اور شدید بارشوں کے لیے استعمال کر رہے ہیں‘۔
پی ایم ڈی کے ڈپٹی ڈائریکٹر انجم نذیر ضیغم نے بھی پیر کو مختلف نیوز چینلز پر واضح کیا کہ حالیہ سیلاب درجہ حرارت میں اضافے کا نتیجہ ہے جس کی وجہ سے گلیشیئر پگھل رہے ہیں اور دریا بپھر رہے ہیں۔
تاہم پی ڈی ایم اے خیبرپختونخوا کے ایک سینئر اہلکار بونیر اور دیگر علاقوں میں ہونے والی بارشوں کو ’بادل پھٹنے‘ کا واقعہ قرار دینے پر مصر رہے۔
انہوں نے دلیل دی کہ جن علاقوں کو تباہ کن سیلاب کا سامنا کرنا پڑا ان میں نہ تو گلیشیئر تھے اور نہ ہی دریا۔ اہلکار نے کہا، ’جو کچھ بھی ہوا وہ مختصر وقت میں ہوا۔ بڑے بڑے پتھروں کو پہاڑوں سے نیچے پہنچنے میں پانچ سے 10 منٹ کے درمیان کا وقت لگا‘۔
پی ڈی ایم اے کے اہلکار نے بتایا کہ ان علاقوں میں چھوٹی ندیاں تھیں جو سیلاب کو آباد علاقوں تک لے جاتی تھیں۔ انہوں نے استدلال کیا کہ عام بارشیں اتنے بڑے سیلاب کا باعث نہیں بنتی ہیں اور نہ ہی ان کے نتیجے میں ایسے تباہ کن نقصانات ہوتے ہیں۔
انہوں نے مقامی لوگوں اور عینی شاہدین کے حوالے سے یہ بھی کہا کہ شدید سیلاب کی وجہ سے چند لمحات میں دیکھتے ہی دیکھتے سیلاب آ گیا جو اس وقت تک نہیں ہو سکتا کہ جب تک تھوڑے ہی عرصے میں زبردست بارش نہ ہو۔ انہوں نے اپنے محکمے کی جانب سے ’کلاؤڈ برسٹ‘ اصطلاح کے استعمال کو جائز قرار دیا۔
آفات کی تیاری کا فقدان
ماہرین متنبہ کرتے ہیں کہ یہ اختلافات صرف سرکاری محکموں کے درمیان جھگڑے نہیں ہیں بلکہ یہ اس حوالے سے سنگین کمزوریوں کو ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے کس حد تک تیار ہے۔
موسمیاتی تبدیلی کی سابق وزیر شیری رحمٰن نے ڈان کو بتایا کہ پی ایم ڈی اور تمام صوبوں کے پی ڈی ایم اے کو ’بادل پھٹنے سے کیا چیز بنتی ہے اور کیا نہیں‘ پر جھگڑتے دیکھنا پریشان کن تھا، خاص طور پر جب ملک کا ایک تہائی حصہ تباہی کا سامنا کررہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ محکمہ موسمیات کو ابہام پیدا کرنے کی بجائے اپنی پیش گوئیوں اور منصوبوں کو واضح کرنے کے لیے نیشنل ڈیز اسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے مزید کہا، ’اب کوئی مون سون عام نہیں ہوگا۔ ہم سب یہ دیکھ سکتے ہیں۔ غیر پیداواری طور پر الگ الگ کام کرنے کے بجائے عوام کی خاطر تمام محکموں کو اپنا ردعمل مربوط کرنا ضروری ہے‘۔
ایک اور اہم کمزوری ملک میں ’فوری مشاہدے‘ کی صلاحیتوں کا فقدان ہے۔ سابق چیف میٹرولوجسٹ ڈاکٹر سردار سرفراز کے مطابق، اعداد و شمار موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے میں کلیدی ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا، ’اگر ہم موسمی واقعات کا پتا نہیں لگا سکتے تو یہ ایسا ہے کہ جیسے ہم اپنے سر پر منڈلاتے خطرات کو دیکھنے کی آنکھ ہی نہیں رکھتے‘۔
انہوں نے وضاحت کی کہ پاکستان میں اس وقت 7 لاکھ مربع کلومیٹر سے زیادہ کے وسیع علاقے میں تقریباً 85 خودکار موسمی اسٹیشنز اور تقریباً 110 دستی رصد گاہیں فعال ہیں۔
انہوں نے اختتام میں کہا کہ ’جبکہ بین الاقوامی معیارات کے مطابق، ہر 100 کلومیٹر پر ایک موسمی مشاہداتی مقام ہونا چاہیے۔ ہمارے آبزرویشن نیٹ ورک میں کمزوریاں ہیں جسے فوری طور پر دور کیا جانا چاہیے۔ تیزی سے شدید ہوتے موسمیاتی دور میں ہم مزید پیچھے رہنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ ہمیں اپنی صلاحیت کو تیزی سے بڑھانے کی ضرورت ہے ’۔
اس رپورٹ میں پشاور سے منظور علی نے بھی تعاون کیا ہے۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔













لائیو ٹی وی