اسرائیل کے ساتھ کسی بھی لمحے جنگ چھڑ سکتی ہے، ایران کا انتباہ
ایران کے ایک سینئر عہدیدار نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ جنگ کسی بھی لمحے چھڑ سکتی ہے اور جون میں ہونے والی 12 روزہ لڑائی کے بعد موجودہ خاموشی کو صرف ایک عارضی وقفہ قرار دیا۔
ڈان اخبار میں شائع خبر رساں اداروں کی رپورٹ کے مطابق ایران کے نائب صدر اول محمد رضا عارف نے کہا کہ ’ہمیں ہر لمحہ ممکنہ محاذ آرائی کے لیے تیار رہنا چاہیے، اس وقت ہم کسی باضابطہ جنگ بندی میں نہیں ہیں بلکہ محض دشمنیوں کے عارضی تعطل کی حالت میں ہیں‘۔
جون کی لڑائی میں اسرائیل نے ایرانی جوہری اور فوجی تنصیبات کے ساتھ ساتھ رہائشی علاقوں پر بھی بمباری کی تھی جس میں ایک ہزار سے زائد افراد جاں بحق ہوئے، جن میں سینئر کمانڈر اور جوہری سائنسدان بھی شامل تھے، ایران نے اس کے جواب میں میزائل اور ڈرون حملے کیے جن میں درجنوں اسرائیلی مارے گئے۔
امریکا نے ایرانی جوہری تنصیبات پر بمباری کرتے ہوئے جنگ میں براہ راست شرکت کے 2 روز بعد 24 جون کو لڑائی روکنے کا اعلان کیا تھا، تاہم جنگ بندی کے کسی معاہدے کو باضابطہ شکل نہیں دی گئی بلکہ جھڑپوں میں صرف غیر علانیہ طور پر وقفہ آیا۔
اتوار کو ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے فوجی مشیر یحییٰ رحیم صفوی نے ایرانی میڈیا کو بتایا کہ ’ملک بدترین صورت حال کے لیے منصوبے تیار کر رہا ہے‘۔
انہوں نے روزنامہ ’شرق‘ میں شائع ہونے والے اپنے بیان میں کہا کہ ’ہم جنگ بندی میں نہیں بلکہ جنگ کے مرحلے میں ہیں، یہ کسی بھی وقت ٹوٹ سکتی ہے، ہمارے اور اسرائیلیوں یا ہمارے اور امریکیوں کے درمیان کوئی ضابطہ، کوئی معاہدہ موجود نہیں ہے‘۔ انہوں نے کہا کہ جنگ بندی کا مطلب حملے روکنا ہے، صورتحال کسی بھی وقت بدل سکتی ہے۔
ایرانی حکام بار بار یہ کہتے آئے ہیں کہ ایران جنگ نہیں چاہتا لیکن کسی نئی جھڑپ کے لیے تیار ہے۔
مغربی طاقتیں ایران پر الزام لگاتی ہیں کہ وہ اپنے ایٹمی پروگرام کے ذریعے جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جس کی تہران سختی سے تردید کرتا رہا ہے، جنگ کے بعد اسرائیل اور امریکا نے بارہا دھمکی دی ہے کہ اگر ایران نے دوبارہ اپنی جوہری تنصیبات بحال کیں اور افزودگی کا عمل شروع کیا تو وہ دوبارہ حملہ کریں گے۔
اقوام متحدہ کے ایٹمی نگران ادارے نے خبردار کیا ہے کہ ایران واحد ایسا غیر ایٹمی ہتھیار رکھنے والا ملک ہے جو یورینیم کو 60 فیصد تک افزودہ کر رہا ہے، جو 2015 کے بین الاقوامی معاہدے میں طے شدہ 3.67 فیصد کی حد سے کہیں زیادہ ہے، یہ سطح جوہری ہتھیار کے لیے درکار 90 فیصد افزودگی کے قریب ہے۔
گزشتہ ہفتے اس معاہدے کے فریق برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے خبردار کیا تھا کہ وہ اس کے تحت ختم کی گئی پابندیاں دوبارہ عائد کر سکتے ہیں، ایران نے سنگین نتائج کی دھمکی دی ہے اور بعض حکام نے اشارہ دیا ہے کہ تہران جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے سے بھی دستبردار ہوسکتا ہے۔
ایران اور آئی اے ای اے کے مذاکرات
ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان اسمٰعیل بقاعی نے پیر کو سرکاری میڈیا کو بتایا کہ ایران اقوام متحدہ کے ایٹمی نگران ادارے کے ساتھ بات چیت جاری رکھے گا اور آئندہ دنوں میں دونوں فریقین کے درمیان مذاکرات کا ایک اور دور متوقع ہے۔
جون میں 12 روزہ جنگ کے دوران اسرائیل اور امریکا کی بمباری کے بعد سے آئی اے ای اے کے معائنہ کار ایران کی جوہری تنصیبات تک رسائی حاصل نہیں کر سکے، حالانکہ آئی اے ای اے کے سربراہ رافیل گروسی بارہا کہہ چکے ہیں کہ معائنہ ان کی اولین ترجیح ہے۔
اسمٰعیل بقاعی نے کہا کہ ’گزشتہ ہفتے ہماری ایجنسی سے بات چیت ہوئی تھی، یہ بات چیت جاری رہے گی اور امکان ہے کہ آئندہ دنوں میں ایران اور ایجنسی کے درمیان ایک اور دور ہوگا‘۔













لائیو ٹی وی