’قدرت متنبہ کررہی ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کوئی سیاسی کھیل نہیں‘

شائع August 22, 2025

اب بارش سے آنے والی آفات کو سیاسی الزام تراشی کے لیے استعمال کرنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی ہے۔

رواں موسمِ گرما میں تین بڑی سیاسی جماعتوں کے زیرِ کنٹرول ملک کے تین بڑے صوبوں کو بارش سے متعلق ہنگامی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا ہے جبکہ کوئی بھی سیاسی جماعت کسی دوسرے پر یہ الزام لگانے کی پوزیشن میں نہیں ہے کہ فلاں صوبائی حکومت نے اپنے صوبے کو آفت کے لیے تیار کرنے میں مؤثر کام نہیں کیا۔

یہ حقیقت واضح ہے کہ پاکستان تیزی سے بڑھتی ہوئی موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نبرد آزما ہے اور اسے موافقت اور تیاری کے لیے روایتی فریم ورک سے ہٹ کر سوچنے کی ضرورت ہے۔ مون سون سال ہا سال شدت اختیار کررہا ہے، گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں جبکہ ہیٹ ویوز بھی بڑھتی جارہی ہیں۔ یہ کوئی سیاسی کھیل نہیں ہے۔ یہ ایک سنگین بحران ہے جو بد سے بدتر ہوتا جارہا ہے۔ سب سے پہلے تو ہمیں ان آفات کو سیاسی رنگ دینے سے اجتناب کرنا چاہیے کیونکہ اس سے واقعی میں کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔

خیبرپختونخوا، سندھ اور پنجاب کی تینوں حکومتوں نے غیرمعمولی بارشوں کے واقعات کا سامنا کیا ہے۔ لیکن غور کریں کہ ان واقعات کو سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے استعمال کرنے کا خمیازہ انہیں خود ہی بھگتنا پڑا ہے۔ مثال کے طور پر جب جولائی میں پنجاب زیرِ آب تھا تو پنجاب اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے قانون ساز نے اپنے ساتھیوں کی معطلی کے خلاف احتجاجاً عمارت کے باہر ’عوامی اسمبلی‘ کا انعقاد کیا۔ چلیے یہ بھی قابلِ فہم تھا کیونکہ سیاست اور ڈراما بھائی بھائی ہیں۔

لیکن ان میں سے کچھ نے اسے صوبے میں بارش سے ہونے والی تباہی کے لیے صوبائی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنانے کے موقع کے طور پر جانا۔ اس اخبار کی ہی ایک رپورٹ میں ان تینوں کا نام لیا گیا جنہوں نے مریم نواز کی حکومت کو بارشوں سے آنے والے سیلاب کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ انہوں نے شور مچایا کہ فصلیں اور کھیت کھلیان تباہ ہوچکے ہیں، مکانات زیرِ آب آچکے ہیں جبکہ حکومتِ پنجاب کے ’ترقیاتی منصوبوں‘ کی بھی قلعی کھل چکی ہے۔ رپورٹ کے مطابق، انہوں نے دعویٰ کیا کہ حکومت کو کوئی پروا نہیں۔

ان کے ساتھیوں کی معطلی کے پیش نظر، پنجاب میں اپوزیشن کی جانب سے احتجاج کرنے کی ضرورت اور خواہش قابلِ فہم ہے۔ جن لوگوں نے اپنی پارٹی کے ساتھ جاری غیرمنصفانہ سلوک پر اپنی سیاست توجہ مرکوز رکھی، ان کا پیغام تو واضح تھا۔ لیکن جن لوگوں نے بارش کی تباہی کو سیاسی فائدے کے لیے اور حکومت پر حملہ کرنے کے لیے استعمال کیا، انہیں اس وقت سرپرائز ملا کہ جب کچھ دنوں بعد ان کی پارٹی کے ماتحت صوبے کو زیادہ بڑی قدرتی آفت کا سامنا کرنا پڑا۔

جتنی بھی تنقید انہوں نے پنجاب حکومت پر کی، اب بے معنی ہوچکی کیونکہ خیبرپختونخوا نے جس تباہی کا سامنا کیا، وہ پنجاب کی تباہی سے کئی گنا زیادہ تھی۔ اگر ہم ان آفات کو صرف سیاسی نظر سے دیکھتے ہیں تو خیبرپختونخوا میں پیدا ہونے والی تباہ کُن صورت حال کا ذمہ دار کس کو ٹھہرائیں گے؟

پھر بہت جلد ہی دونوں صوبوں کے حکام ’کلاؤڈ برسٹ‘ کے معنی پر ایک دوسرے سے جھگڑتے نظر آئے۔ دونوں صوبوں نے ہونے والی تباہی کو ’بادل پھٹنے‘ کا نتیجہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب میں چکوال جبکہ خیبرپختونخوا میں بونیر میں بادل پھٹنے کے واقعات پیش آئے۔ پھر میٹ آفس نے دونوں صوبوں کے حکام کو باور کروایا کہ ’کلاؤڈ برسٹ‘ ایک خاص واقعے کا نام ہے جو چکوال اور بونیر دونوں میں رونما نہیں ہوا، ساتھ ہی زور دیا کہ دونوں حکام اس اصطلاح کو اپنے صوبے کی تباہی کا جواز کے طور پر پیش کرنے سے گریز کریں۔

لیکن کلاؤڈ برسٹ پر وہ اتنے مصر کیوں ہیں؟ کیونکہ بادل پھٹنے کے واقعے کی پیش گوئی کرنا تقریباً ناممکن ہوتا ہے اور اسے آفات کا ذمہ دار ٹھہرانے سے ہوتا یہ ہے کہ حکومت کو اپنی ناقص تیاری چھپانے کا بہانہ مل جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صوبائی حکومتیں اب تواتر سے اپنے صوبوں میں بارش سے پیدا ہونے والی تباہ کُن صورت حال کے لیے بادل پھٹنے کی اصطلاح استعمال کرتی نظر آتی ہیں۔

رواں ہفتے کراچی نے بھی بارشوں کے شدید اسپیلز کا سامنا کیا ہے۔ منگل کو ہونے والے پہلے اسپیل میں 12 گھنٹے کے دورانیے میں 200 ملی میٹرز سے زائد بارش ریکارڈ کی گئی جس سے شہر اربن فلڈنگ کا شکار ہوا۔ یہ سیلابی صورت حال خطرناک تھی لیکن نکاسی آب بہتر تھی۔ میری عمر اتنی تو ہے کہ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ 1991ء یا 2006ء میں ہونے والی نسبتاً کم بارشوں کے بعد بھی شہر کئی دنوں تک سیلاب میں ڈوبا ہوا تھا۔ تاہم 2020ء یا 2022ء کی طرح رواں ہفتے ہونے والی بارشوں میں بھی چند گھنٹوں میں پانی صاف ہوگیا۔ تو ماضی کی نسبت یہ قدرے بہتر صورت حال ہے۔

لیکن سوال اپنی جگہ برقرار ہے کہ شہر میں اتنی تیزی سے نکاسی آب کا نظام کام کیوں نہیں کرتا کہ بارشوں کے دوران سیلابی صورت حال پیدا ہی نہ ہو؟ اس حوالے سے کراچی میں ناقص شہری منصوبہ بندی کے ماہر عارف حسن نے پوڈکاسٹر شہزاد غیاث کو ایک اچھا انٹرویو دیا جس میں انہوں نے بیان کیا کہ کس طرح شہر کے تین اہم نکاسی آب کے راستوں پر ہونے والا ترقیاتی کام یا تعمیرات اربن فلڈنگ کی ایک بڑی وجہ ہے۔

ہر صوبائی حکومت کو آفات سے نمٹنے کے لیے اپنی تیاریوں میں بہتری لانے کی ضرورت ہے جن کی تعداد اور شدت بڑھتی جارہی ہے۔ پہلا اور سب سے اہم مرحلہ موسم کی بہتر پیش گوئی کی صلاحیت ہے۔ درست پیش گوئیوں کے بغیر ہم بنیادی طور پر یہ جانے بغیر کہ آگے کیا آنے والا ہے، طوفان کی زد میں آجائیں گے۔

ملک کے ایک سابق چیف میٹرولوجسٹ کا ایک اہم نکتہ میں یہاں شامل کرنا چاہوں گا۔ اسی اخبار کی ایک رپورٹ میں انہوں نے کہا کہ پاکستان میں صرف 85 خودکار موسمیاتی اسٹیشنز موجود ہیں جو اس کے 7 لاکھ مربع کلومیٹر سے زائد کی زمین پر کام کررہے ہیں۔ ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن کے اصولوں کے مطابق، ہر 100 مربع کلومیٹر فلیٹ زمین اور ہر 50 مربع کلومیٹر پہاڑی زمین کے لیے ایک موسمیاتی اسٹیشن ہونا چاہیے۔ اس کا مطلب ہے کہ پاکستان میں ہزاروں موسمیاتی اسٹیشنز کی کمی ہے جس کی وجہ سے ہم موسمی خطرات کی مناسب نگرانی نہیں کرسکتے۔

اس بڑی کمزوری کے ساتھ ہم ہمیشہ ہی آفات سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں ہوں گے کیونکہ یہ تو حالات تو مزید سنگین ہوتے جائیں گے۔ نتیجتاً قدرتی آفات ہمیشہ سیاسی الزام تراشی اور پوائنٹ اسکورنگ کے لیے استعمال ہوتی رہیں گی اور اس سے ہمیں کوئی مدد نہیں ملے گی۔

تقریباً ایک دہائی پہلے پاکستان میں پانچ سالوں میں پانچ بڑے سیلاب آئے تھے جنہوں نے ایک واضح انتباہی کا کام کیا تھا۔ اب ایک بار پھر قدرت ہمیں متبنہ کررہی ہے کہ سیاست ہمیں نہیں بچا سکتی۔

رواں موسمِ گرما میں ملک کی تین سیاسی جماعتوں کے ماتحت چلنے والے تین صوبوں میں سیلاب نے ظاہر کیا کہ قدرتی آفات کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا آج ملک میں ہونے والی سیاست کی بدترین شکل ہے۔ ایسا کرنے والے وہی لوگ ہیں جو ایندھن کی قیمتوں یا کرنسی میں اتار چڑھاؤ جیسے عوامل پر ایک دوسرے پر الزام لگاتے تھے۔ یہ وقت ہے کہ ذمہ داری کا مظاہرہ کیا جائے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے لیے ڈان میڈیا گروپ کی مہم بریتھ پاکستان کا حصہ بنیں۔
خرم حسین

صحافی ماہر معیشت اور کاروبار ہیں

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں۔ : khurramhusain@

ان کا ای میل ایڈریس ہے: [email protected]

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 5 دسمبر 2025
کارٹون : 4 دسمبر 2025