’یہ سروائیکل کینسر روکنے اور اپنی بچیوں کا مستقبل محفوظ بنانے کا وقت ہے‘
لاہور میں ادارہ بیت القرآن کے زیرِ اہتمام آگاہی سیشن میں ماحول سائنس، عقیدے اور کمیونٹی کے مضبوط احساس سے معمور تھا۔ 30 سے زائد افراد جن میں مختلف پس منظر سے تعلق رکھنے والے مذہبی رہنما اور کمیونٹی ورکرز شامل تھے، نوجوان لڑکیوں کی صحت، تحفظ اور انہیں سروائیکل کینسر (رحم کے نچلے حصے کا سرطان) سے بچانے کے لیے ہیومن پیپیلوما وائرس (ایچ پی وی) ویکسین کے حوالے سے بیداری پیدا کرنے کے لیے اجتماعی کام کرنے کے جذبے سے ایک چھت تلے جمع ہوئے۔
اس موقع پر ایک مقرر نے کہا، ’اسلام اپنی صحت کا خیال رکھنے کی ذمہ داری عائد کرتا ہے‘۔ دیگر نے اس بارے میں بات کی کہ سعودی عرب، انڈونیشیا، ملائیشیا اور لیبیا جیسے ممالک میں مذہبی اسکالرز کی جانب سے صحت کی دیکھ بھال کے شعبے میں کس طرح مدد کی جاتی ہے جہاں یہ ویکسین معمول کے امیونائزیشن پروگرامز کا حصہ ہے۔
یہ سروائیکل کینسر کو روکنے والی واحد ویکسین ہے۔ صرف ایک ویکسین لڑکیوں کے مستقبل کو محفوظ بناسکتی ہے۔ سول سوسائٹی کے نمائندوں نے مرد، خواتین اور کمیونٹی کے اراکین کو قائل کرنے کے لیے سوالات کے جوابات بھی دیے۔
سروائیکل کینسر دنیا بھر میں خواتین میں چوتھا سب سے عام کینسر ہے۔ خطرناک طور پر یہ پاکستان میں خواتین میں پایا جانے والا دوسرا سب سے عام کینسر ہے۔ اگرچہ اسے روکا جاسکتا ہے لیکن یہ ہر دو منٹ میں ایک خاتون کی جان لیتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق، اس کینسر سے ہونے والی 94 فیصد اموات کم یا متوسط آمدنی والے ممالک میں ہوتی ہیں۔
صرف پاکستان میں ہی ہر سال 5 ہزار خواتین میں سروائیکل کینسر کی تشخیص ہوتی ہے جبکہ تقریباً 3 ہزار خواتین اس خاموش قاتل کے ہاتھوں اپنی جانیں گنوا دیتی ہیں۔ لیکن ویکسین امید کی کرن ہے۔ ایچ پی وی کی ویکسین لگوانے والے ہر ایک ہزار لڑکیوں میں سے ممکنہ طور پر 17.4 فیصد لڑکیوں کی زندگی بچائی جاسکتی ہے۔
کینسر روکنے کے لیے کارروائی کی فوری ضرورت کو تسلیم کرتے ہوئے، پاکستان نے نیشنل امیونائزیشن ٹیکنیکل ایڈوائزری گروپ کی سفارشات کے بعد اس ویکسین کو متعارف کروانے کی منظوری دی ہے۔ ویکسین الائنس Gavi کے تعاون سے یہ ٹیکا اسکول پر مبنی حکمت عملی کے ذریعے 9 سے 14 سال کی عمر کی لڑکیوں کو لگایا جائے گا۔ اس عمر کی تقریباً ایک کروڑ 80 لاکھ لڑکیاں ہیں جنہیں مرحلہ وار یہ ویکسین لگائی جائیں گی۔
12 روزہ یہ مہم 15 ستمبر سے سندھ، پنجاب، آزاد کشمیر اور اسلام آباد میں شروع ہوگی۔ اس کے بعد یہ ویکسین بچپن میں لگائی جانے والے ویکسینیشن پروگرام کا حصہ بن جائے گی۔
ایچ پی وی متعارف کروانا پاکستان کے لیے ایک اہم قدم ہے۔ رواں سال جون میں سروائیکل کینسر کے خاتمے کے عالمی فورم میں، پاکستان نے 2030ء کے لیے ڈبلیو ایچ او کے 90-70-90 اہداف کے سے اپنی وابستگی کی تصدیق کی۔
ہدف یہ ہے کہ 2030ء تک 15 سال کی عمر کی 90 فیصد لڑکیوں کو ایچ پی وی کی ویکسین لگائی جائے، 70 فیصد کے اعلیٰ معیار کے ٹیسٹ کیے جائیں جبکہ یہ یقینی بنایا جائے کہ سروائیکل کینسر میں مبتلا 90 فیصد خواتین کا بہترین علاج ہورہا ہو۔
ویکسینیشن، اسکریننگ اور علاج میں پیش رفت، سروائیکل کینسر کو صحت کا ایک بڑا مسئلہ بننے سے روکنے میں اہم ہے۔ لیکن یہ صرف درست پالیسیز کے بارے میں نہیں ہے بلکہ اس کے لیے لوگوں، خاص طور پر سول سوسائٹی کی تنظیموں کی بھی ضرورت ہے تاکہ وہ صحت کے نظام کو مقامی کمیونٹیز کے ساتھ مربوط کریں۔
سول سوسائٹیز ویکسین سے متعلق معاشرتی بالخصوص پسماندہ علاقوں میں پائے جانے والے ابہام کو دور کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔ کمیونٹیز کے ساتھ مل کر کام کرنے سے وہ سمجھ سکتی ہیں کہ کیوں کچھ لوگوں ویکسین کے بارے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں، وہ ایسے پیغامات بنانے میں مدد کرسکتی ہیں جو مقامی ثقافتوں کا احترام کریں اور اعتماد حاصل کرنے کے لیے باہمی رابطے کے ذریعے پیغامات پہنچانے میں مدد کر سکتی ہیں۔
ایک بڑا چیلنج ان لڑکیوں تک رسائی حاصل کرنا ہے جو اسکول جانے سے محروم ہیں۔ پاکستان میں اس عمر میں 45 فیصد لڑکیاں اسکول ہی نہیں جاتیں۔ ان لڑکیوں کے بہت سے سرپرست ایچ پی وی کے خطرات اور ویکسین کے فوائد کے حوالے سے لاعلم ہیں۔
جھپیگو کے ایک حالیہ سروے نے انکشاف کیا ہے کہ لڑکیوں کی نگہداشت کرنے والے صرف 17.2 فیصد افراد نے سروائیکل کینسر کے بارے میں سنا تھا، 4.4 فیصد نے ایچ پی وی کے بارے میں سنا تھا جبکہ 3 فیصد سے بھی کم ایچ پی وی ویکسین کے بارے میں جانتے تھے۔
چونکہ بہت سے لوگوں کے پاس واضح معلومات نہیں ہوتی ہیں، اس لیے کمیونٹی میں قابل اعتماد لوگ جیسے مذہبی رہنما، اساتذہ، صحت کے کارکنان اور مقامی اثر و رسوخ رکھنے والے افراد کا کردار بہت اہم ہو جاتا ہے۔ یہ وہ آوازیں ہیں جو ویکسین کے حوالے سے معاشرے میں پائے جانے والے ابہام کو دور کرسکتی ہیں اور ہچکچاہٹ کا شکار والدین اور خاندانوں کو اعتماد میں لے سکتی ہیں۔
نیشنل امیونائزیشن ورکشاپ میں، ماہرین نے نوٹ کیا کہ غلط معلومات، قابل اعتماد معلومات کی کمی اور مواصلات کے فقدان کی وجہ سے لوگ ویکسین بالخصوص ایچ پی وی لگوانے سے ہچکچاتے ہیں۔
ایسے میں سول سوسائٹیز مثبت کردار ادا کرسکتی ہیں جو مقامی حل پیدا کرنے، اہم بات چیت شروع کرنے اور کمیونٹی کو پہلے سے ہی بھروسہ کرنے والے لوگوں کے ذریعے پیغامات پھیلانے میں مدد کرتے ہیں۔ ان کی شمولیت اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ ویکسین متعارف کروانے کی کوششیں نہ صرف سائنسی طور پر درست ہیں بلکہ یہ سماجی اعتبار سے بھی قابلِ قبول ہیں۔
مذہبی اور روایتی رہنما پہلے ہی آگے بڑھ رہے ہیں۔ تمام کلیدی گروپوں کو شامل کرنے کے مضبوط منصوبے کے ساتھ ان کی حمایت، ایچ پی وی ویکسین کو قبول کرنے میں کلیدی ثابت ہوگی۔
تمام بچوں کو صحت کے حقوق حاصل ہیں۔ نسل، مذہب اور سماجی اقتصادی پس منظر سے قطع نظر، جان بچانے والی ویکسین تک رسائی کو یقینی بنانا بچوں کا بنیادی حق ہے۔ پاکستان کے قومی حفاظتی ٹیکوں کے پروگرام میں ایچ پی وی ویکسین کو متعارف کروایا جانا ایک تاریخی سرمایہ کاری ہے۔ یہ نہ صرف صحت عامہ کی جیت ہے بلکہ یہ آنے والی نسلوں کو قابل علاج کینسر سے بچانے کا وعدہ بھی ہے۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔












لائیو ٹی وی