اقوام متحدہ کا زلزلے کے پیش نظر پاکستان سے افغانوں کی بے دخلی روکنے کا مطالبہ
افغانستان نے بدھ کو کمانڈوز کو فضائی راستے سے متاثرہ علاقوں میں اتارا تاکہ ملبے تلے دبے زندہ افراد کو نکالا جا سکے، یہ علاقے رواں ہفتے حالیہ زلزلوں سے بری طرح تباہ ہوئے ہیں جن میں اب تک 1400 سے زائد افراد جاں بحق ہو چکے ہیں، اسی دوران اقوام متحدہ کے ادارے نے خبردار کیا ہے کہ اگر فوری فنڈنگ نہ ملی تو متاثرین کے لیے غذائی امداد جلد ختم ہو جائے گی۔
ڈان اخبار میں شائع خبر رساں اداروں کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے مہاجرین کے سربراہ نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ افغان مہاجرین کی ملک بدری عارضی طور پر روک دی جائے، کیونکہ یہ سلسلہ ہفتے کے روز آنے والے ہلاکت خیز زلزلے کے باوجود جاری ہے، حالیہ اخراج ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب غربت زدہ افغانستان ایک تباہ کن زلزلے کے اثرات سے نبردآزما ہے جس کی شدت 6 تھی اور جس نے سرحدی دیہات کو ملیا میٹ کر دیا، جہاں حال ہی میں ملک بدر کیے گئے مہاجرین کی بڑی تعداد آباد تھی۔
اس آفت میں اب تک 1400 سے زیادہ افراد جاں بحق ہو چکے ہیں، اقوام متحدہ کے مطابق 2023 سے اب تک 12 لاکھ سے زائد افغان پاکستان چھوڑنے پر مجبور ہوئے، جن میں سے صرف اس سال 4 لاکھ 43 ہزار سے زیادہ واپس گئے ہیں۔
چمن بارڈر پر مقامی منتظم حبیب بنگلزئی نے ’اے ایف پی‘ کو بتایا کہ ڈیڈ لائن ختم ہونے کے بعد سے اب تک 4 ہزار سے زائد افراد واپس جا چکے ہیں، اسپن بولدک میں افغان حکام کے مطابق 31 اگست کے بعد سے روزانہ 250 سے 300 خاندان واپس آرہے ہیں، طورخم بارڈر پر صرف منگل کے روز ہی 6 ہزار 300 سے زیادہ پی او آر کارڈ ہولڈرز واپس گئے، اور اپریل سے اب تک تقریباً 63 ہزار پی او آر کارڈ ہولڈرز افغانستان میں داخل ہو چکے ہیں۔
افغان مہاجرین، جن میں سے کچھ بیرونِ ملک دوبارہ آباد کاری کے منتظر ہیں، نے ڈیڈ لائن سے قبل پولیس کے چھاپوں، بھتہ خوری اور ہراسانی کی شکایات کیں۔
سرچ اینڈ ریسکیو
کئی کمانڈوز کو ان جگہوں پر اتارا گیا جہاں ہیلی کاپٹر اتر نہیں سکتے تھے، تاکہ زخمیوں کو محفوظ مقامات تک پہنچایا جا سکے، امدادی تنظیموں کے مطابق یہ وقت کے خلاف دوڑ ہے تاکہ ملبے تلے دبے افراد کو بچایا جا سکے۔
ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) نے خبردار کیا ہے کہ مشرقی افغانستان میں آنے والے تباہ کن زلزلوں سے متاثرہ افراد کے لیے وقت تیزی سے ختم ہو رہا ہے، افغانستان میں ڈبلیو ایف پی کے سربراہ جان آئلیئف نے ’رائٹرز‘ کو بتایا کہ ان کے پاس صرف 4 ہفتوں کے لیے خوراک اور فنڈنگ موجود ہے، ان کے مطابق ’چار ہفتے تو بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لیے بھی ناکافی ہیں، متاثرین کو دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کی بات تو دور کی ہے‘۔
طالبان انتظامیہ کے مطابق ہلاکتوں کی تعداد 1457 تک پہنچ چکی ہے، 3394 افراد زخمی ہیں اور 6700 سے زیادہ گھر تباہ ہو گئے ہیں، اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ ابھی بھی لوگ ملبے تلے دبے ہوئے ہیں، اس لیے ہلاکتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
افغانستان ہندوکش کے پہاڑی سلسلے میں تباہ کن زلزلوں کی زد میں رہتا ہے جہاں بھارتی اور یوریشیائی ٹیکٹونک پلیٹس ملتی ہیں۔
گھرانے صفحہ ہستی سے مٹ گئے
کنڑ صوبے کے کچھ دیہات میں پورے کے پورے گھرانے صفحہ ہستی سے مٹ گئے، جہاں زیادہ تر ہلاکتیں ہوئیں، جبکہ قریبی ننگرہار اور لغمان میں درجنوں افراد جاں بحق اور سیکڑوں زخمی ہوئے۔
زندہ بچ جانے والے اپنے اہل خانہ کو تلاش کرنے کے لیے ملبے میں چھان بین کرتے رہے، لاشوں کو بانس اور رسّی سے بنی چارپائیوں پر اٹھاتے اور کدالوں سے قبریں کھودتے رہے۔
رسائی انتہائی مشکل رہی کیونکہ جھٹکوں کے بعد پہاڑوں سے پتھر گرنے لگے جس سے پہلے سے کٹے ہوئے دیہات تک پہنچنا مزید مشکل ہو گیا، خوف کے باعث کئی خاندان کھلے آسمان تلے پڑے رہے کہ کہیں ٹوٹے پھوٹے گھروں کی باقی دیواریں ان پر نہ گر جائیں۔
اقوام متحدہ کے دفتر برائے رابطہ انسانی امور کے مطابق خشک پتھروں، کمزور اینٹوں اور لکڑی سے بنے گھروں نے زلزلے میں کوئی تحفظ فراہم نہیں کیا، خاص طور پر ایسے وقت میں جب دنوں کی مسلسل بارش سے زمین پہلے ہی غیر مستحکم ہو چکی تھی۔












لائیو ٹی وی