کیا ٹرمپ کی پالیسیز امریکا کی عالمگیریت کے لیے خطرہ ہیں؟
شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس ایک ایسے وقت میں منعقد ہوا کہ جب جغرافیائی سیاسی میدان میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ یہ تبدیلیاں زیادہ تر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی خلل ڈالنے والی پالیسیز کی بدولت ہوئی ہیں جنہوں نے ٹیرف جنگ چھیڑ کر عالمی تجارت کو ہلا کر رکھ دیا ہے جبکہ اس نے واشنگٹن کی جغرافیائی سیاسی ترجیحات کو بھی ترتیب دیا ہے۔
امریکی صدر نے اپنی جارحانہ پالیسیز کا اطلاق اتحادیوں اور مخالفین دونوں پر کیا ہے جس نے انہیں ایک دوسرے کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کرنے کی ترغیب دی ہے جبکہ وہ اب بھی ان اضافی ٹیکسوں کو کم کرنے کے لیے امریکا کے ساتھ معاہدے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ٹرمپ کے ہتھکنڈوں نے چین اور روس کو ایک دوسرے کے مزید قریب کردیا ہے۔ بھارت پر اس کے تجارتی حملے اور روسی تیل کی درآمد پر جرمانہ عائد کرنے نے نئی دہلی کے ساتھ کئی دہائیوں پر مشتمل اسٹریٹجک تعلقات کو نقصان پہنچایا ہے۔ اس پیش رفت نے بھارت کو مجبور کیا ہے کہ وہ چین کے ساتھ رابطہ کرے اور تعلقات کو بہتر کرے۔ یہ بھی بنیادی وجہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے 7 سالوں میں اپنا پہلا دورہ چین کرنے کا فیصلہ کیا۔
ان واقعات نے شنگھائی تعاون تنظیم کے اعلیٰ سطح اجلاس کے ماحول کو تشکیل دیا۔ 2001ء میں اس یوریشین گروپ کی تشکیل کے بعد سے یہ سب سے بڑا اجلاس تھا۔ اس میں 10 رکن ممالک اور دیگر 16 مبصر یا ڈائیلاگ شراکت دار ممالک کے ساتھ ساتھ 10 بین الاقوامی تنظیموں کے سربراہان نے شرکت کی۔
ایس سی او علاقائی سلامتی اور اقتصادی تعاون پر مرکوز ایک گروپ ہے جو دنیا کی 40 فیصد سے زیادہ آبادی کی نمائندگی کرتا ہے اور عالمی معیشت کے ایک چوتھائی حصےکا ذمہ دار ہے۔
اس سربراہی اجلاس نے چینی صدر شی جن پنگ کو عالمی نظام کے لیے ایک متبادل نقطہ نظر کا تعین کرنے کا موقع فراہم کیا جو ٹرمپ کی تصادم کی پالیسیز کے برعکس تعاون پر زور دیتا ہے۔ ٹرمپ کے اقدامات سے پیدا ہونے والے غیر مستحکم بین الاقوامی منظر نامے میں، چین نے استحکام، زیادہ ذمہ دار اور قابلِ اعتماد عالمی قیادت اورر گلوبل ساؤتھ کے لیے ایک مضبوط آواز بننے کی پیشکش کی۔
یہ سربراہی اجلاس علامتی اعتبار سے اہم تھا کیونکہ اس نے دنیا خاص طور پر امریکا کو مضبوط پیغامات بھیجے۔ اس نے ترقی پذیر ممالک کے درمیان اتحاد کا مظاہرہ کیا جبکہ جیسا کہ کچھ لوگوں نے کہا، یہ اجلاس ’جغرافیائی سیاسی نقشے کو دوبارہ ترتیب دینے‘ کے لیے سائیڈ لائنز پر ہونے والی دو طرفہ ون آن ون ملاقاتوں کے لیے اہم تھا۔
چینی صدر نے اپنی تقریر میں ایک منصفانہ، زیادہ مساوی بین الاقوامی نظام کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے بین الاقوامی گروپس کے ذریعے مل کر کام کرنے کے لیے چین کی حمایت کے عزم کو دہرایا اور کہا کہ اس حوالے سے اقوام متحدہ کو مرکزی کردار ادا کرنا چاہیے۔ نام لیے بغیر امریکا کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہوں نے بعض ممالک کی جانب سے ’غنڈہ گردی‘ کے رویے کو مسترد کیا اور ’سرد جنگ‘ کی فرسودہ ذہنیت کی مذمت کی جو ’دنیا کو خوفزدہ کرتی رہتی ہے‘۔
انہوں نے کچھ ممالک کی ’تسلط پسندی کے خلاف واضح مؤقف‘ اپنانے کا مطالبہ کیا جبکہ ایسے نظام کو مسترد کرنے پر زور دیا کہ جس میں ’ایک ملک دیگر کے ساتھ کام کیے بغیر اپنے طور پر فیصلے کرتا ہے (یونی لیٹرل)‘۔
جس طرح سے دنیا کو منظم کیا جا رہا ہے، صدر شی جن پنگ نے اسے ایک اہم دوراہے پر قرار دیا ہے جبکہ انہوں نے ’گلوبل گورننس انیشیٹو‘ کے نام سے ایک منصوبہ متعارف کروایا جس کے تحت بین الاقوامی قوانین کی پیروی اور اس بات کو یقینی بنانے پر زور دیا جائے گا کہ تمام ممالک خاص طور پر گلوبل ساؤتھ کے ممالک کو مساوی شرکت کے مواقع ملیں۔
مزید اہم بات یہ ہے کہ چینی صدر نے رکن ممالک کی جانب سے ایک نیا ایس سی او ترقیاتی بینک قائم کرنے کے لیے حمایت حاصل کی اور ایس سی او اراکین کے لیے دو ارب رینمنبی کی گرانٹس اور 10 ارب رینمنبی کے قرضوں کا وعدہ کیا۔ یہ پہلا موقع ہے جب معیشت میں ایس سی او کے کردار کو حقیقی ترقیاتی فنڈنگ سے مدد ملی ہے جس سے اس بات کی عکاسی بھی ہوتی ہے کہ چین عالمی مالیاتی نظام میں زیادہ طاقتور ہوتا جا رہا ہے۔
سربراہی اجلاس میں جاری ہونے والے تیانجن اعلامیے میں ‘ایک زیادہ منصفانہ کثیر قطبی عالمی نظام کی تخلیق کا مطالبہ کیا گیا۔ امریکا کا براہ راست نام لیے بغیر، اس اعلامیے نے ان ممالک پر تنقید کی جو ’عالمی مسائل کو محاذ آرائی کے ذریعے حل کرنے‘ کی کوشش کرتے ہیں۔ اس میں تنہا ایک ملک کی جانب سے دیگر پر دباؤ ڈالنے کے لیے کیے جانے والے اقدامات کو مسترد کیا گیا بشمول اقتصادی اقدامات، جو ٹرمپ کی تجارتی پالیسیز کی جانب اشارہ تھا۔
اعلامیے میں شنگھائی تعاون تنظیم کے اراکین کے درمیان تجارت بڑھانے کا اعادہ بھی کیا گیا ہے۔ مشترکہ اعلامیے میں ’جون 2025ء میں ایران کے خلاف اسرائیل اور امریکا کے فوجی حملوں کی شدید مذمت کی گئی‘ اور انہیں ’اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قانون کی سنگین خلاف ورزی‘ قرار دیا گیا۔
اس میں اسرائیل-فلسطین تنازعات اور غزہ میں تباہ کن انسانی صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ فوری جنگ بندی اور مسئلہ فلسطین کے منصفانہ حل پر زور جبکہ سربراہی اجلاس میں یوکرین جنگ کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔
اس طویل اعلامیے کا ایک بڑا حصہ دہشتگردی کے خلاف لڑنے کے اجتماعی عزم کے لیے وقف تھا۔ یکسوئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایس سی او نے پہلگام حملے اور جعفر ایکسپریس پر دہشتگردانہ حملے دونوں کی مذمت کی لیکن ان ممالک کے نام نہیں لیے گئے کہ جہاں یہ واقعات رونما ہوئے۔ تنظیم کی جانب سے استعمال کی جانے والی ایسی زبان کو یقیناً پاکستان اور بھارت دونوں کی منظوری حاصل تھی۔
سربراہی اجلاس سے پہلے صدر شی جن پنگ اور وزیر اعظم نریندر مودی کے درمیان ون آن ون ملاقات جوکہ اس سال کی دوسری ملاقات تھی، نے کافی حد تک عالمی توجہ حاصل کی۔ ملاقات کے بعد دونوں رہنماؤں نے مثبت بیانات دیے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ 2020ء سے انتہائی کشیدہ رہنے کے بعد دونوں ہمسایوں کے تعلقات کی برف پگھل رہی ہے۔
اس سے قبل بھارت نے سرحدی تنازع کے تصفیہ کو تعلقات معمول پر لانے سے مشروط کیا تھا جبکہ چین نے اصرار کیا کہ دو طرفہ تعلقات کو سرحدی مسئلے تک محدود نہیں ہونا چاہیے۔ اب ایسا لگتا ہے کہ بھارت نے چین کے مؤقف سے اتفاق کرنا شروع کر دیا ہے۔
اگست میں سرحدی انتظام کے معاہدے پر پہنچنے کے بعد چین-بھارت تعلقات میں پہلے ہی بہتری آنا شروع ہوچکی تھی۔ دونوں ممالک کے سربراہان کے درمیان تیانجن ملاقات کو تعلقات معمول پر لانے کی جانب ایک اور قدم کے طور پر دیکھا گیا۔ تاہم یہ ابھی تک واضح نہیں ہوسکا ہے کہ آیا یہ ٹرمپ کے غیر دوستانہ سلوک کے جواب میں مودی کا محض عارضی ردعمل ہے یا یہ ایک گہری تبدیلی کا نقطہ آغاز ہے۔
چین اور بھارت کے نئے رابطے کے حوالے سے بہت زیادہ مفروضے قائم کرنا غیر دانشمندانہ ہوگا کیونکہ اب بھی دونوں ہمسایوں کے درمیان مشترکہ مفادات سے زیادہ اختلافات ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارتی حزب اختلاف نے مودی حکومت کو بھارت کے خلاف امریکا کے موجودہ مؤقف کی وجہ سے خارجہ پالیسی میں اچانک تبدیلی کرنے کے حوالے سے خبردار کیا ہے۔
دوسری اہم دوطرفہ ملاقات جس نے توجہ حاصل کی وہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن اور وزیر اعظم شہباز شریف کے درمیان تھی۔ اس ملاقات میں دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری لانے اور تجارت کو وسعت دینے کی خواہش کا اظہار کیا گیا۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ پاکستان زیادہ آزاد خارجہ پالیسی پر عمل کرنا چاہتا ہے۔
وزیر اعظم پاکستان نے چینی صدر شی جن پنگ اور وزیر اعظم لی کیانگ سے بھی اہم ملاقاتیں کیں۔ دونوں ممالک نے اپنی اسٹریٹجک شراکت داری کو مضبوط بنانے، پاک-چین اقتصادی راہداری کے اگلے مرحلے اور اپنے آزاد تجارتی معاہدے کو اپ گریڈ کرنے کا اعادہ کیا۔
انہوں نے 2025ء سے 2029ء تک تعاون کے منصوبے کی بھی منظوری دی اور ایک درجن سے زائد معاہدوں (ایم او یوز) پر دستخط کیے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکا کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں حالیہ بہتری کے باوجود چین اب بھی پاکستان کا سب سے اہم اسٹریٹجک پارٹنر ہے۔
تیانجن سربراہی اجلاس ایک ایسی دنیا میں جغرافیائی سیاسی تبدیلیوں کی عکاسی کرتا ہے جو تیزی سے کثیر قطبی ہوتی جارہی ہے اور جس میں ٹرمپ کی پالیسیز نے کچھ تبدیلیوں کو مزید تیز کیا ہے۔ نئے عالمی نظام کی تشکیل کے لیے غیر مغربی طاقتوں کی کوششیں سب سے زیادہ نتیجہ خیز ثابت ہو سکتی ہیں۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔













لائیو ٹی وی