عالمی ادارہ صحت کا طالبان سے زلزلوں کے بعد خواتین امدادی کارکنوں پر عائد پابندیاں ختم کرنے کا مطالبہ
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے طالبان حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ افغان خواتین امدادی کارکنوں پر عائد پابندیاں ختم کریں تاکہ وہ بغیر مرد سرپرست کے سفر کرسکیں اور ان خواتین کی مدد کرسکیں جو حالیہ زلزلے کے بعد علاج معالجے تک رسائی کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔
غیر ملکی خبررساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق ڈبلیو ایچ او کے افغانستان دفتر کی ڈپٹی نمائندہ ڈاکٹر مکتا شرما نے بتایا اس وقت ہمیں جو سب سے بڑا مسئلہ درپیش ہے، وہ متاثرہ مقامات پر خواتین عملے کی شدید کمی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ایک اندازہ ہے کہ علاقے میں تقریباً 90 فیصد طبی عملہ مردوں کا ہے، جب کہ باقی 10 فیصد خواتین بھی ڈاکٹرز نہیں بلکہ ان میں اکثر دایہ یا نرسز ہیں، یہ صورتحال علاج میں رکاوٹ ڈال رہی ہے کیونکہ خواتین مرد عملے کے ساتھ رابطہ کرنے یا اکیلے علاج کے لیے سفر کرنے سے خوفزدہ یا غیر آرام دہ محسوس کرتی ہیں۔
خیال رہے کہ افغانستان جو پہلے ہی شدید انسانی بحران کا شکار ہے، یکم ستمبر کو آنے والے زلزلے اور آفٹر شاکس کے نتیجے میں 3 ہزار 600 سے زائد افراد زخمی ہوئے اور ہزاروں کی تعداد میں افراد بے گھر ہوگئے۔
افغان وزارت صحت اور طالبان انتظامیہ کے ترجمان نے فوری طور پر تبصرے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔
طالبان کا کہنا ہے کہ وہ خواتین کے حقوق کا احترام اسلامی قانون کی اپنی تشریح کے مطابق کرتے ہیں، 2022 میں طالبان انتظامیہ نے افغان خواتین این جی او عملے کو گھر سے باہر کام کرنے سے روکنے کا حکم دیا تھا۔
انسانی حقوق کے نمائندوں کے مطابق طالبان کی جانب سے خواتین کو کچھ شعبوں، خاص طور پر صحت اور تعلیم میں چھوٹ دی گئی ہے لیکن کئی کے مطابق یہ اقدامات ناکافی اور بے ربط ہیں، جو خواتین عملے کی بڑی تعداد میں تعیناتی کی راہ میں رکاوٹ ہیں، خاص طور پر ہنگامی حالات میں جن میں سفر ضروری ہے۔
ڈاکٹر مکتا شرما کا کہنا تھا کہ اس کا مطلب ہے کہ امدادی تنظیمیں اور خواتین عملہ غیر یقینی صورتحال کا شکار ہیں اور بعض صورتوں میں وہ رسک لینے کے قابل نہیں۔
انہوں نے کہا کہ پابندیاں بہت بڑی ہیں، محرم (مرد سرپرست کی ضرورت) کا مسئلہ برقرار ہے اور ڈی فیکٹو حکام کی طرف سے کوئی باضابطہ چھوٹ فراہم نہیں کی گئی، حالانکہ ان کی ٹیم نے یہ مسئلہ گزشتہ ہفتے حکام کے ساتھ اٹھایا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں لگا کہ ہمیں حکام سے درخواست کرنی چاہیے کہ یہ وہ وقت ہے جب واقعی مزید خواتین طبی کارکنوں کی ضرورت ہے، ہمیں انہیں لانے دیں اور دوسرے مقامات سے بھی تلاش کرنے دیں جہاں وہ دستیاب ہوں۔
ڈاکٹر مکتا شرما نے کہا کہ وہ مستقبل میں خواتین کے علاج تک رسائی کے حوالے سے بہت زیادہ فکر مند ہیں، خاص طور پر ذہنی صحت کی دیکھ بھال کے لیے تاکہ وہ صدمے پر قابو پا سکیں، اور ان خواتین کے لیے جن کے مرد خاندان کے افراد مارے گئے ہیں اور جو اب بغیر مرد سرپرست کے پابندیوں کا سامنا کر رہی ہیں۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ افغان خواتین ڈاکٹروں کی بڑھتی ہوئی کمی اس لیے بھی ہے کہ طالبان نے طالبات کو ہائی اسکول اور یونیورسٹی جانے سے روک دیا ہے، جس کی وجہ سے خواتین ڈاکٹروں کی نئی کھیپ تیار نہیں ہو رہی۔
اقوام متحدہ کا اندازہ ہے کہ تقریباً 11 ہزار 600 حاملہ خواتین بھی زلزلوں سے متاثر ہوئیں، ایک ایسے ملک میں جہاں ایشیا کی بلند ترین زچگی اموات کی شرح موجود ہے۔
ڈاکٹر شرما نے مزید کہا کہ متاثرہ علاقوں میں اس سال تقریباً 80 صحت مراکز امریکی امداد میں کٹوتی کی وجہ سے بند ہو چکے ہیں اور مزید 16 صحت مراکز زلزلے سے نقصان کی وجہ سے بند کرنے پڑے۔












لائیو ٹی وی